کچھ یادیں میرے ماضی کی
ماضی سے وابسطہ یادیں تلخ و شیریں ہوسکتی ہیں لیکن اگر ہم اِس مشینی دور کا موازنہ ذرا اپنے ماضی کے آلات سے کریں تو ہمیں خوش گوار یادیں ضرور ملیں گی۔ یہاں تمام الیکٹرک ، الیکٹرونکس اور دیگر آلات کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ کیوں کہ آئے دن ٹیکنالوجی کی بدولت نت نئے آلات منظر عام پر آتے ہیں۔ آج میں آپ کو اپنے ماضی کے آلات بالخصوص کمپیوٹر کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں۔
کمپیوٹر سے ہمارا تعلق کوئی قصہ پارینہ نہیں ہے بلکہ نوے کی دہائی کے اوائل میں کمپیوٹر سے پہلا تعارف دہم جماعت کی انگریزی کی کتاب میں شامل مضمون’’ دی کمپیوٹر‘‘ کی شکل میں ہوا۔ کمپیوٹر کی تعریف میں لکھا تھا کہ ایک ایسا آلہ جو بجلی سے چلتا ہو ، کمپیوٹر کہلاتا ہے۔ مصنف کو علم نہ تھا کہ آئندہ ایسا دور بھی آئے گا جس میں بجلی ناپید ہوجائے گی اور سیاسی جماعتیں بجلی کی لوڈ شیدنگ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنائیں گی۔ خیر بجلی ہو یا نہ ہو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا استعمال زندگی کے تمام شعبوں میں ناگزیر ہو گیا ہے۔ ماضی میں کمپیوٹر کی تعریف یوں بھی کی جاتی تھی ۔ ’’ ہروہ انسان جو حساب کتاب کر سکے ، کمپیوٹر کہلاتا ہے ‘‘۔ یہ تعریف 1940 ء سے قبل ڈکشنریوں اور انسائیکلو پیڈیا میں ملتی ہے۔
خیر چھوڑیں ، اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جب 1994 ء میں ہم نے پہلی بار تھیوری سے نکل کر کمپیوٹر کو پریکٹیکل دیکھا تو ہماری حالت دیدنی تھی ۔ لیکن پریشانی یہ تھی کہ اس مشین کو چلایا کیسے جائے۔ جستجو کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے لئے مخصوص سافٹ وئیر کی ضرورت ہوتی ہے جن کو کمپیوٹر کی اصطلاح میں آپریٹنگ سسٹم کہتے ہیں۔ موجودہ دور کے سیل فونز میں بھی سمال آپریٹنگ سسٹم پائے جاتے ہیں۔
اَب اگلا مرحلہ آپریٹنگ سسٹم کی تلاش تھاجو ہمیں فلاپی ڈسک پر ملا۔ جس کا نام مائیکروسافٹ ڈسک آپریٹنگ سسٹم (ڈوس ) تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت ہارڈ ڈسک انتہائی مہنگی واقع ہوتی تھیں اس لئے زیاد تر کمپیوٹر بغیر ہارڈ ڈسک کے ہوتے اور اُن کو چلانے والے سافٹ وئیر فلاپی ڈسکوں پر محفوظ ہوتے تھے یعنی فلاپی ڈسک ایک سٹوریج دیوائس تھاجو سوا پانچ اور ساڑھے تین انچ کے حالتوں میں پائی جاتی تھی اور اس میں زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنے کی صلاحیت 1.44 میگا بائٹ ہوتی تھی۔ موجودہ دور کے میموری کارڈز اس سے کئی ہزار گنا زیادہ ڈیٹا محفوظ کرنے کے حامل ہیں۔ اور جن کمپیوٹروں میں ہارڈسک استعمال ہوتی تھی ، اُن میں بھی محفوظ کرنے کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوتی تھی۔ ہمارا واسطہ جس کمپیوٹر سے پڑا تھا وہ XT کمپیوٹر تھا۔ یاد رہے کہ XT کمپیوٹر سب سے پہلے IBM نے1983 ء متعارف کروائے تھے جن کی ریم 128 کلوبائٹ ، سوا پانچ انچ کی فلاپی ڈسک ڈرائیو (360 کلوبائٹ میموری کے ساتھ) اور ہارڈ ڈسک دس میگابائٹ کی تھی جب کہ اس کی پروسیسنگ سپیڈ 4.77 میگا ہرٹز تھی، جو موجودہ دور کے کمپیوٹروں سے کئی ہزار گنا کم اسپیڈ ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈوس آپریٹنگ سسٹم کمانڈ بیسڈ تھا جس کے ساتھ صرف کی بورڈ استعمال ہوا کرتا تھا۔ مائوس کا استعمال ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ وارد ہوا جو یوزر فرینڈلی اور گرافیکل سسٹم کہلاتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ ٹچ پیڈ ، ٹچ اسکرین اور جوئے سٹک نے لے لی ہے۔ ونڈوز کو بھی مائیکروسافٹ کارپوریشن نے 1985 ء میں متعارف کروایا ۔ ہمارے زیر استعمال اِس کے ورژن 3.1 اور 95ورژن تھے۔ اس دور میں بلیک اینڈ وائٹ (مونو کروم )مانیٹرز کی بہتات تھی اورر کلر مانیٹرز شاذو نادر دستیاب ملتے تھے۔ جن کی جگہ اَب LEDs نے لے لی ہے۔ نیٹ ورک کا تصور اگرچہ تھا مگر ہمارے کمپیوٹر اس سے عاری تھے۔
اکیسویں صدی کی شروعات میں انٹرنیٹ کا بھونچال آگیا جس کے ثمرات آج سوشل میڈیا یعنی ای میل ،بلاگ ، ٹویٹر اور فیس بُک کے صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ میں جب بھی اپنے ماضی کو کمپیوٹر کے حوالے سے ری کا ل (Recall ) کرتا ہوں تو ایک عجیب خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
میں سوچتا ہوں گر وقت ملے
ہر یاد کو اک عنوان میں دوں
ہر عنوان پر اک باب لکھوں
پھر بابوں کو ترتیب کروں
اور ایک حسیں کتاب لکھوں
Comments are closed.