لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی بیٹری بھی آپ کو شناخت کرنے کے لئے استعمال ہوسکتی ہے
کسی بھی ڈیوائس کو ٹریک کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ڈیوائس کو انٹرنیٹ پرموجود آئی پی ایڈریس سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے، تاہم اس طریقے میں کچھ رکاوٹیں بھی آ سکتی ہے۔انٹرنیٹ پر موجود مختلف آن لائن سروسز پر ڈیوائس کی پروفائل سے بھی ڈیوائس کو ٹریک کیا جا سکتا ہے مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ انٹرنیٹ سروس سے کسی بھی وقت لاگ آؤٹ ہوا جا سکتا ہے۔ کسی ڈیوائس پر متحرک ہارڈ وئیر لگا کر یا سافٹ وئیر یاانسٹال کر کے بھی اسے ٹریک کر سکتے ہیں، اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اس ہارڈ وئیر یا سافٹ وئیر کا پتہ چلتے ہی اسے ہٹایا یا ان انسٹال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم مجموعی طور پر سروس پروفائل اور مال وئیر کی مدد سے کسی ڈیوائس کو کامیابی سے ٹریک کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس میں سب سے بڑی دقت اُن چھوٹے وقفوں پر قابو پانا ہے جس میں ڈیوائس سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔جیسے کسی مخصوص وقت میں آئی پی ایڈریس کا فعال نہ ہونا یا صارف کا انٹرنیٹ سے جڑنے کے لئے ٹور کا استعمال شروع کردینا۔ ایسے میں ڈیوائس کی شناخت کا عمل ناممکن ہوجاتا ہے۔ مگر اس کا ایک حل فرانس اور بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے محققین نے پیش کیا ہے۔
یہ نئی تکنیک ایک پروگرام جسے بیٹری اسٹیٹس اے پی آئی (ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس) کہا جاتا ہے ، استعمال کرتی ہے۔ یہ دراصل ایچ ٹی ایم ایل 5 میں شامل ایک سہولت ہے جسے کروم، فائر فاکس یا اوپیرا ویب براؤزر سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ اے پی آئی اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی بیٹری کا لیول معلوم کرنے ، چارجنگ یا ڈس چارنگ کا وقت نوٹ کرنے کے کام آتی ہے۔ بیٹری اسٹیٹس اے پی آئی سے حاصل ہونے والا ڈیٹاکسی ڈیوائس کو شناخت کرنے کے لئے انگلیوں کے نشانات کی طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس ڈیٹا سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایک ڈیوائس کی حرکات و سکنات دوسری ڈیوائس سے کتنی ملتی جلتی ہیں۔ محققین کے مطابق بیٹری اسٹیٹس اے پی آئی کے ذریعے ویب سائٹس جو ڈیٹا حاصل کرتی ہیں، اس میں سیکنڈوں کی حد تک بتایا گیا ہوتا ہے کہ بیٹری کو ڈِس چارج ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا اور مزید کتنے فی صد بیٹری باقی ہے۔ ان دونوں اعداد و شمار کے ذریعے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ منفرد نمونےبنائے جاسکتے ہیں۔ یوں یہ دونوں نمبر کسی شناختی نمبر کی طرح کام آسکتے ہیں۔
پرانی بیٹریاں ڈیوائس کو شناخت کرنے کے لئے زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کا چارجنگ لیول زیادہ منفرد ہوچکا ہوتا ہے۔ فیکٹری سے تازہ تازہ نکلی ہوئی بیٹریاں اکثر ایک سی ہوتی ہیں۔ اس لئے چارج کی بنیاد پر اُن میں فرق کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
ورلڈ وائیڈ ویب کنشورشیم(W3C) جو ورلڈ وائیڈ ویب کے معیارات طے کرنے کا ذمے دار ادارہ ہے، کے مطابق بیٹری کا ڈیٹا سکیوریٹی کے حوالے سے اتنا اہم نہیں۔ اسی لئے اس ڈیٹا کو سافٹ وئیر جب چاہیں استعمال کرسکتے ہیں اور اس کے لئے انہیں صارف کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے بیٹری کے ذریعے ڈیوائسز کو شناخت کرنے کا عمل مستقبل میں زور پکڑ سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے پی آئی کو تھوڑا بیکار کرکے صارف کی شناخت کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ اے پی آئی سو فیصد درستگی سے بیٹری کی حالت کے بارے میں اطلاع دینے کے بجائے تقریباً درست حالت کے بارے میں بتائے تو اس اے پی آئی کو فنگر پرنٹس کی طرح استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ویسے بھی فائر فاکس یا کسی دوسرے براؤزر کو اگر بیٹری کی حالت کے بارے میں نہ بھی پتا ہو تو زیادہ فرق نہیں پڑنا۔
ٹور نیٹ ورک کو چلا دینے سے بیٹری کی گنجائش تبدیل نہیں ہو جاتی، نہ ہی وی پی این استعمال کرنے سے ایسا ہوتا ہے۔بائیو میٹرک سینسر ، جو صارفین کی ڈیوائس میں زیادہ سے زیادہ عام ہوتے جا رہے ہیں، کسی شخص کو شناخت کرنے کا عمل زیادہ سہل ہوگیا ہے۔
(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ اگست 2015 میں شائع ہوئی)
چند سال قبل ایک دوست نے مشورہ دیا کہ تم اگر اپنا ڈیٹا اور کام محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو کوئی پرانا لیپ ٹاپ خریدو جس میں وائی فائی کی سہولت موجود نہ ہو۔ اور پھر اس کمپیوٹر کو کبھی لوکل ایریا نیٹ ورک سے بھی منسلک نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میرے بھائی، اس تردد میں حکومتی ادارے پڑیں تو اور بات ہے، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ تھیوری کے اعتبار سے میرے کمپیوٹر یا ڈیوائس میں ایسی چپ بھی موجود ہو سکتی ہے یا فٹ کی جا سکتی ہے جو آپریٹنگ سسٹم کو بتائے بغیر اپنا کام جاری رکھے۔