دنیا کا سب سے چھوٹا ٹرانسسٹر جو نینو ٹیوبز اور انجن آئل سے بنا ہے
کمپیوٹر اور اس جیسے دیگر آلات کو تیز اور بہترین بنانے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ ٹرانسسٹر کے سائز کو بھی کم کیا جائے۔ ٹرانسسٹر آج کل کے برقی آلات کا وہ بنیادی جُز ہے جس کے بغیر کمپیوٹر ممکن ہے نہ آپ کی ڈیجیٹل گھڑی۔ ٹرانسسٹر کا حجم جتنا کم ہوگا، کمپیوٹر اتنے ہی زیادہ بہتر ، تیز رفتار اور توانائی کے خرچ میں کفایت شعار ہوگا۔ لیکن سلیکان ٹرانسسٹر کو ایک حد تک ہی چھوٹا کیا جاسکتا ہے۔
ٹرانسسٹر تین اہم حصے یا ٹرمنل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ٹرمنل کا نام drain ، دوسرے کا source اور تیسرے کا gate ہوتا ہے۔ کرنٹ کا بہاؤ سورس سے ڈرین کی طرف ہوتا ہے۔ gate کسی آن آف سوئچ کی طرح کام کرتا ہے۔ جب یہ آن ہوتا ہے تو کرنٹ source سے drain کی جانب بہنا شروع ہوجاتا ہے اور جب آف ہوتا ہے تو کرنٹ کا بہاؤ بھی رک جاتا ہے۔ گیٹ کے آن یا آف ہونے کا انحصار اسے دیئے گئے وولٹیج پر ہوتا ہے۔
جب سلیکان ٹرانسسٹر کا سائز بہت ہی چھوٹا ہوجائے تو آزاد الیکٹران سورس سے ڈرین کی جانب بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی سورس اور ڈرین کے درمیان کوئی گیٹ نہیں رہتا۔
اب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے سے تعلق رکھنے والے علی جاوے اور اُن کے ساتھیوں نے سیلیکون ٹرانسسٹر کا متبادل تلاش کیا ہے۔ انہوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا ٹرانسسٹر بنایا ہے جو صرف 1 نینو میٹر گیٹ استعمال کرتا ہے۔ ایک نینو میٹر کی پیمائش کا اندازہ لگانے کے لیے بس اتنا ہی سمجھ لیجیے کہ انسانی بال کا سائز 50 ہزار نینو میٹر ہوتا ہے۔
علی اور اُن کے ساتھیوں نے کاربن نینوٹیوب اور molybdenum disulfide یا MoS2 کو ملا کر انسانی بال کی موٹائی سے بھی 50ہزار گنا پتلا ٹرانسسٹر بنایا ہے۔ MoS2 عام طور پر انجن میں چکنائٹ فراہم کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ عام آٹو پارٹس کی دکانوں پر دستیاب ہے۔ اس کا تعلق دھاتوں کے اس خاندان سے ہے،جسے متوقع طور پر لیزر، سولر سیل، ایل ای ڈیز اور نینو سکیل ٹرانسسٹرز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سلیکان ٹرانسسٹر اس وقت بیکار ہوجائے گا جب گیٹ کی لمبائی 5 نینو میٹر سے کم ہو۔ اس صورت میں گیٹ الیکٹرانوں کو سورس سے ڈرین تک جانے سے نہیں روک پائے گا۔ لیکن علی اور ان کے ساتھی MoS2 کے استعمال سے صرف ایک نینو میٹر گیٹ پر مبنی ٹرانسسٹر بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
یہ مستقبل کے ٹرانسسٹرز کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ کیونکہ اگلے چند سالوں میں مزید چھوٹے ٹرانسسٹر بنانا ممکن نہیں رہے گا۔ تاہم علی جاوی کا کہنا ہے کہ ابھی انہوں نے صرف ٹرانسسٹر بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسے تجارتی پیمانے پر تیار کرنے اور چپ میں منتقل کرنے میں ابھی کئی مشکلات ہیں جنہیں دور کرنے کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.