اسمارٹ فون کو گاما شعاعوں کے ڈیٹیکٹر میں بدلنے کا کامیاب مظاہرہ

تابکارشعاعیں ضروری نہیں کہ ایٹم بم پھٹنے کے بعد ہی پھیل کر نقصان پہنچائیں۔ گاما (Gamma) تابکار شعاعوں کے پھیلنے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔فیکٹریوں کے فضلے سے بھی گاما شعاعیں پھیل سکتی ہیں، گرینائٹ اور لائم سٹون  کی چٹانوں سے بھی گاما شعاعوں کا اخراج  ہو سکتا ہے۔ انتہائی بلندی پر بھی ان کا سامنا ہو سکتا ہے۔گاما شعاعوں سے براہِ راست سامنا زندہ اجسام کے لئے انتہائی خطرناک ہے اور شدید شعاعیں چند لمحوں میں کسی کی جان لے سکتی ہیں۔

اگر کبھی کوئی ایسا حادثہ ہو جائے جس میں گاما شعاعوں کا اخراج ہو سکتا ہو تو پہلے پہل اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہونے والا نقصان تابکار شعاعوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ تابکار شعاعوں کا پتہ لگانے والے ڈیٹیکٹر اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ تمام لوگ یا جائے حادثہ پر پہنچنے والے لوگ اس خریدنا برداشت نہیں کر سکتے۔ مگر اب بھلا ہو اڈاہو (Idaho) نیشنل لیبارٹری میں کام کرنے والے محققین کا جنہوں نے تابکار گاما شعاعوں کا پتا لگانے کے لیے ایک ایسی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن بنائی ہے جو آپ کے اسمارٹ فون کے کیمرہ کو ہی تابکار گاما شعاعوں کا ڈیٹیکٹر بنا دے گی۔یہ ڈیٹیکٹر کسی پروفیشنل ڈیٹیکٹر جتنا زبردست تونہیں لیکن  پھر بھی ہنگامی حالات میں یہ تو پتا چل ہی جائے گا کہ کہاں پر گاما شعاعیں موجود ہیں۔ اس کی موجودگی کا پتا چلنے کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔جلد ہی یہ ایپلی کیشن تمام اسمارٹ فونز میں انسٹال کی جا سکے گی۔ ہنگامی حالات میں کام کرنے والے لوگوں کے لیے تو یہ ایک نعمت سے کم نہیں، کیونکہ ہر کسی کے پاس اسمارٹ فون تو ہوتا ہی ہے، اگر کوئی ڈیٹیکٹر نہ بھی لا سکے تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہاں تابکاری ہے یا نہیں۔

آپ کو یہ سن کر شاید یقین نہ آئے کہ اسمارٹ فون کے کیمرہ کے سینسر کو گاما شعاعوں کی شناخت کرنے کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ بے حد سادہ ہے۔جب ایک CMOS یعنی Complementary Metal Oxide Semiconductor چِپ سے روشنی کے فوٹون ٹکراتے ہیں تو اس سے الیکٹرک چارج (یعنی الیکٹران کا بہاؤ)پیدا ہوتا ہے۔اس بہاؤ کو CMOSکے سنسرکنٹرولر سے ماپا جا سکتا ہے۔گاما شعاعیں دراصل انتہائی طاقتور فوٹون ہی ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سینسر کنٹرولر پر اسے آسانی سے ماپا جا سکتا ہے۔

یہ خبر جنوری 2014ء کے شمارے میں تفصیلاً ملاحظہ کی جاسکتی ہے

Comments are closed.