خود کار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی بہتر ہوئی تو ڈرائیور سوتا رہے گا
گوگل کو اپنی خود کار گاڑیوں کو تجربے کو اس وقت روکنا پڑا جب ان کے متعدد ڈرائیور کار کو سیلف ڈرائیونگ پر لگا کر سوتے ہوئے یا میک اپ کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
سیلف ڈرائیونگ کار کے ابتدائی تجربات تھے، جن کے دوران ایک تجرباتی ڈرائیور کو اس موقع پر سوتا ہوا پایا گیا جب گاڑی موٹر وے پر 55 میل فی گھنٹے یعنی 88 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چل رہی تھی۔ اس کا علم ہوتے ہی گوگل نے تحقیق کو زیادہ محفوظ بنانے اور مکمل خودکار بغیر ڈرائیور کی کاروں تک لے جانے کے بجائے اپنا ہائی وے ڈرائیونگ اسسٹ (Driving Assist) فیچر ہی بند کردیا تھا۔
گوگل کا خودکار گاڑیوں کا شعبہ ویمو (Waymo) کہتا ہے کہ جنہیں نیم-خود کار گاڑی استعمال کرنے کے لیے رکھا گیا تھا، جانچ کے دوران سڑک پر میک اپ کرتے، اپنے فون میں مصروف یہاں تک کہ سوئے ہوئے بھی پائے گئے، بجائے اس کے کہ ان کی نظریں آگے سڑک پر ہوتیں ۔ یہ حرکتیں دیکھنے کے چند ہی دن بعد منصوبے کے اس حصے کو ختم کردیا گیا تھا۔ ادارے کے چیف ایگزیکٹو جان کریفکک کا کہنا ہے کہ آپ ڈرائیور اسسٹ ٹیکنالوجیوں کو جتنا بہتر بنائے گا، اس کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص سو جائے گا اور جب گاڑی کہے گی کہ ‘مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے’ تو اس کا دھیان کہیں اور ہوگا۔
ایسے ہی دیگر چیلنجز کو دیکھتے ہوئے خودکار گاڑیوں کے لیے لیول4 اور لیول5 پر توجہ دی گئی جو ڈرائیور کی ضرورت کو ختم کرکے گاڑی کی خود مختاری کو مزید بڑھاتے ہیں۔
ویسے گوگل کے مقابل ادارے ٹیسلا کا آٹو پائلٹ منصوبہ 2016ء میں ایک ڈرائیور کی موت کا سبب بن چکا ہے، جو ٹیسلا ماڈل ایس چلا رہا تھا۔ پھر بھی ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانی ڈرائیور سے دوگنی بہتر ہے البتہ انہوں نے حادثات سے بچنے کے لیے ڈرائیورز کی تربیت پر زور دیا۔
Comments are closed.