سب سے زیادہ خلائی کچرا پھیلانے والے ممالک
ہمیں پتہ تو نہیں چلتا لیکن ہمہ وقت ہزاروں سیٹیلائٹس ہمارے اوپر سے گزرتے ہیں، کوئی چند سو میل کے فاصلے پر ہوتا ہے تو کچھ لاکھوں میل کے فاصلے پر لیکن انسان کے بنائے گئے اجسام میں سے چلتے پھرتے سیٹیلائٹس پھر بھی بہت کم ہیں۔ 95 فیصد اجسام دراصل Space Junk یعنی خلائی کچرا ہیں۔ بے قابو خلائی اسٹیشن، استعمال شدہ راکٹ کے پرزے، مردہ سیٹیلائٹ، خلا بازوں کے گمشدہ اوزار اور نجانے کیا کیا؟
مدار میں موجود یہ خطرناک اجسام گولی سے بھی 10 گنا زیادہ تیز رفتار کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں اور انہیں زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوکر بھسم ہونے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ ایک ایروسپیس انجینیئر اور ایٹموسفیئرک ری انٹری ماہر بل ایلور کے مطابق یہ ملبہ صدیوں تک خلا میں رہے گا۔
بدترین صورت حال یہ ہے کہ صرف ایک تصادم ہزاروں نئے برق رفتار اور بے قابو ٹکڑے پیدا کر سکتا ہے جو دیگر خلائی جہازوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
یورپین اسپیس ایجنسی کے مطابق ایک ملی میٹر سے بڑے اس وقت 170 ملین ملبے کے ٹکڑے ہیں جو زمین کے گرد لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ ”
ذرا یہ چارٹ دیکھیں، یہ اسپیس ٹریک ڈاٹ آرگ کے ڈیٹا سے ترتیب دیا گیا ہے جو یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اکتوبر 2017ء میں زمین کے گرد سب سے زیادہ کس ملک کا خلائی کچرا پایا جاتا ہے
یہ ظاہر کرتا ہے کہ خلا میں سب سے زیادہ اجسام روس کے ہیں، جن کی تعداد ساڑھے 6 ہزار سے بھی زیادہ ہے لیکن سب سے زیادہ کچرا اس کا نہیں ہے۔ یہ ‘اعزاز’ امریکا کے پاس ہے۔
روس کے 3961 اجسام ایسے ہیں جو خلائی کچرے کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ امریکی سرگرمیوں کے نتیجے میں 3999 ٹکڑے خلا میں آزادانہ پھر رہے ہیں۔
چین، جس کا خلائی پروگرام اتنا بھی پرانا نہیں ہے، 3475 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ 2007ء میں چین نے اینٹی-سیٹیلائٹ ویپس ٹیسٹ کے دوران اپنے ہی ایک سیٹیلائٹ کو تباہ کیا تھا۔ یہ انتہائی متنازع قدم تھا جس سے خلا میں 2300 ایسے ٹکڑے بکھرے جن کا پتہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ ناخن سے بڑے 35 ہزار سے زیادہ ٹکڑے ہیں اور جن کا سراغ لگانا ممکن نہیں، ان کی تو تعداد لاکھوں میں ہوگی۔
Comments are closed.