ریپڈ شیئر کا سروس معطل کرنے کا اعلان، صارفین کو ڈیٹا محفوظ کرنے کی ہدایت
گزشتہ کئی سالوں سے قانونی جنگ لڑنے والی فائل اسٹوریج اور شیئرنگ کی معروف ویب سائٹ ریپڈ شیئر (RapidShare) نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی اپنی سروس معطل کررہی ہے۔ اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے ایک پیغام میں ریپڈ شیئر انتظامیہ نے صارفین سے کہا ہے کہ ” ہم اپنے تمام صارفین کو سختی سے صلاح دیتے ہیں کہ وہ اپنا ڈیٹا محفوظ بنا لیں۔ 31 مارچ 2015ء کے بعد تمام کھاتے ناقابل رسائی ہوجائیں گے اور خود کار طور پر خذف کردیئے جائیں گے۔ “ اس پیغام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ تاہم یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کی وجہ وہ قانونی جنگ ہے جو ریپڈ شیئر گزشتہ کئی سالوں سے لڑتا آرہا ہے۔
ریپڈ شیئر کا نام ہمیشہ غیر قانونی مواد ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے بدنام رہا ہے اور اسے میگا اپ لوڈ، آئی ایس او ہنٹ اور پائریٹ بے جیسی ویب سائٹس کے ساتھ ملا کر دیکھا جاتا ہے۔ 2009ء میں ایسوسی ایشن آف امریکن پبلشرز نے اسے غیر قانونی اور چوری شدہ مواد کا گڑھ قرار دیااور 2010ء میں تعلیمی مواد شائع کرنے والے 6 بڑے امریکی پبلشرز نے ریپڈ شیئر کے خلاف جرمنی میں ایک اہم مقدمہ جیتا۔ عدالت نے ریپڈ شیئر کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ تمام چوری شدہ کتابیں اپنی ویب سائٹ سے حذف کردے۔ ستمبر 2013ء میں جرمنی کی وفاقی عدالت ِ انصاف نے قرار دیا کہ ریپڈ شیئر کے کاروبار کرنے کا طریقہ کار ایسے مواد کو تقسیم کرنے اور پھیلانے کی ترغیب دیتا ہے جس کے حقوق محفوظ ہوں۔ ساتھ ہی عدالت نے کمپنی کو کاپی رائٹ مواد کی مانیٹرنگ کا حکم دیا۔ اُس وقت ریپڈ شیئر کے مطابق اپ لوڈ کی جانے والی فائلوں میں سے 5 سے 6 فیصد کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
چوری شدہ مواد تک رسائی کو ختم کرنے کی وجہ سے ریپڈ شیئر کے استعمال میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر ایسے صارفین جنہوں نے ریپڈ شیئر کو رقم ادا کرکے کھاتے خرید رکھے تھے، کی تعداد بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ ایک تجزیہ نگار کے مطابق کچھ فائل اسٹوریج سروسز اپنی کمائی کے لئے چوری شدہ مواد پر انحصار کررہی ہوتی ہیں جبکہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی روکنے کے حوالے سے اقدامات مہنگے ہوتے ہیں۔ اگر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کمائی میں کمی واقع ہوتی ہے لہٰذا آن لائن فائل اسٹوریج سروسز اس حوالے سے یا تو کمزور اقدامات کرتی ہیں یا پھر اپنا کاروبار ہی بند کردیتی ہیں۔
Comments are closed.