عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی خلیج، ذمہ دار صرف سوشل میڈیا نہیں
معاشرہ دو انتہاؤں تک کیسے پہنچا؟ اس کا جواب آسان نہیں
کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ سوشل میڈیا نے عوام کے درمیان نفرتوں کی نئی فصل بوئی ہے؟ سیاسی بنیادوں پرعام افراد کے درمیان میں جو دراڑیں تھیں، وہ اب کھل کر سامنے آ گئی ہیں؟انہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے امریکا کی دو معروف جامعات نے تحقیق کی ہے اور نتائج حیران کن ہیں۔ انہوں نے پایا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں سیاسی خیالات میں بڑھتی ہوئی تقسیم پیدا ہونے کی وجہ صرف سوشل میڈیا نہیں ہے بلکہ تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس تقسیم کا الزام سوشل میڈیا پر ڈالنا دراصل اسے قربانی کا بکرا بنانا ہے کیونکہ نتائج بتا رہے ہیں کہ انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے والوں میں بھی تقسیم کی وسیع خلیج دکھائی دیتی ہے اور وہ بھی سیاسی انتہاؤں کو چھونے میں دیر نہیں لگاتے۔
یہ دلچسپ تحقیق امریکا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی اور براؤن یونیورسٹی نے کی ہے جنہوں نے امریکن نیشنل الیکشن اسٹڈی کا ڈیٹا استعمال کیا جو 1948ء سے اب تک ہونے والے تمام امریکی انتخابات پر عوامی رحجانات اکٹھے کرتی رہی ہے۔ یہ پوری معلومات بالمشافہ سروے کے ذریعے جمع کی گئی ہے اور اس میں ووٹ دینے والے کی عمر، سماجی پس منظر، سیاسی میلان، اقدار اور سیاسی گروہوں اور امیدواروں کے بارے میں معلومات جیسی تفصیلات شامل ہیں۔
اس ڈیٹا کے ساتھ ساتھ پیو ریسرچ سینٹر کی انٹرنیٹ کے استعمال پر کی گئی سالہا سال کی تحقیق کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں 1996ء سے اب تک ان تمام سالوں میں انٹرنیٹ استعمال کا ڈیٹا موجود ہے، جن میں انتخابات ہوئے تھے۔ ان اعدادوشمار کی مدد سے سالہا سال میں سیاسی رویّوں میں آنے والی تبدیلیوں اور اس کا سبب بننے والی کوئی کڑی ملنے کی امید پیدا ہوئی۔
تحقیق میں پایا گیا کہ 1996ء سے2016ء تک،20 سالوں میں امریکی عوام میں سیاسی تقسیم مزید گہری ہوئی ہے اور عوام دو مختلف انتہاؤں پر پہنچ رہے ہیں۔ لیکن تحقیق کا سب سے دلچسپ پہلو یہی ہے کہ ان 20 سالوں میں جن افراد نے انٹرنیٹ کا بہت کم استعمال کیا، ان کے خیالات میں بھی کوئی درمیانی راستہ نظر نہیں آتا بلکہ ان کے درمیان تقسیم انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں سے بھی زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
دیکھا گیا کہ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کے درمیان 18 سے 39 سال کی عمر کے حامل افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ وسیع سیاسی خلیج ہے۔ جبکہ اس کا اندازہ سب کو ہے کہ ان 20 سالوں میں انٹرنیٹ ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد کے مقابلے میں نوجوانوں میں زیادہ مقبول رہا ہے۔
براؤن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک محقق جیسی شاپیرو کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق اس امر کو خارج از امکان تو قرار نہیں دیتی کہ سیاسی لحاظ سے تقسیم کی خلیج وسیع کرنے میں انٹرنیٹ کا کردار ہے، البتہ چند معاملات میں وہ آن لائن خبروں اور سوشل میڈیا کو واحد قصور وار نہیں سمجھتے۔ "بلاشبہ سوشل میڈیا کا مضبوط اثر و رسوخ ہے لیکن جو لوگ انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے ان پر ایسے اثرات کیوں مرتب ہو رہے ہیں؟”
یعنی معاشرہ دو انتہاؤں کی جانب کیوں جا رہا ہے؟ اس کا جواب پیچیدہ ہے اور اتنا آسان نہیں ہے جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔
Comments are closed.