ماسیوو اوپن آن لائن کورسز
پاکستان میں ایم او او سی کے ذریعے تعلیم
لاہور کے ایک نجی اسکول کی تیرہ سالہ طالبہ خدیجہ نظامی گذشتہ چند سالوں سے اپنے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم او او سی کے پلیٹ فارمز courseraاورudacityپر مختلف اعلیٰ تعلیم کے مضامین پڑھ رہی ہیں۔یہ ننھی منی ّ طالبہ محض دس برس کی تھیں جب انھوں نے پہلی بار udacityپر مصنوعی ذہانت جیسے تیکھے موضوع پر آن لائن کورس پڑھا۔ اس کے اگلے سال انھوں نے udacityپر اپنی عمر سے بڑھ کر طبیعات کا کورس نہایت اعلیٰ نمبروں سے مکمل کیااور اس کے بعد فلکی حیاتیات (آسٹروبائیولوجی) جیسے جدید مضمون میں پڑھائی مکمل کی۔گزشتہ سال خدیجہ کو سوئزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم میں مدعو کیا گیاجہاں نیویارک ٹائمز کے کالم نگار نے ان سے انٹرویو لیا۔ اسٹیج پر خدیجہ کے ساتھ نشست رکھنے والے حضرات میں بِل گیٹس، لیری سمر، کورس ایرا کی شریک بانی ڈیفنی کولر، ایم آئی ٹی کے صدر رفائل ریف اور وِکی پیڈیا کے بانی جمی ویلز شامل تھے۔
لاہور ہی کے چارٹرڈ اکائونٹینسی کے ایک طالبِ علم سید طلال حسن نے اپنے گروپ کے ساتھیوں کے ساتھ مِل کر ایک ایم او او سی کورس "پیس گیم”ترتیب دیا جو اوپن لرننگ ڈاٹ کام پر اپریل 2013ء میں شروع کیا گیا۔ اس طرح طلال نے پاکستان کے سب سے پہلے ایم او او سی انسٹرکٹر بننے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے کم عمر ایم او او سی انسٹرکٹر بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ طلال کو اسٹین فورڈ DNLEآن لائن کورس کے سب سے کم عمر ٹیم لیڈر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ان کی تیار کردہ ٹیم نے پوری دنیا سے دیگر 285ٹیموں کے مقابلے میں سب سے کامیاب پروجیکٹ بھی تیار کیا۔
ایم او او سی کے مواقعے استعمال کرنے، اس کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے ، پوری دنیا میں اپنی ذہانت کا لوہا منوانے اور پاکستان کا نام روشن کرنے کی اور بھی انفرادی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔تاہم اجتماعی سطح اور بڑے پیمانے پر تادمِ تحریر کوئی اہم اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔جب کہ پاکستان میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کی از حد ضرورت ہے جس کے لیے ایم او او سی کے وسائل سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔وطن ِ عزیز میں تعلیم کی موجودہ صورتِ حال اور اس کے نتیجے میں مستقبل کے خدشات سے ہم سب واقف ہیں تاہم پھر بھی ہم یونیسکو کی 2012ء کی جاری کی گئی رپورٹ اور پاکستان میں تعلیم کی تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں۔ 1950ء کی مردم شماری میں پاکستان کی شرح خواندگی 14 فی صد جب کہ انڈیا کی شرح خواندگی 20 فی صد تھی۔ 2012ء میں پاکستان کی شرح خواندگی 58 فی صد جب کہ انڈیا کی 75 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے 221 ممالک میں پاکستان کا نمبر 180 واں ہے۔ پاکستان کے 32 فی صد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف تین فی صد طلبہ کالج اور اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں جن میں سے صرف ایک فی صد گریجویٹ ہو پاتے ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر جاوید لغاری ایک مضمون میں لکھتے ہیں’’کیا ایم او او سی کا کوئی مستقبل ہے؟ اس سوال کی گنجائش نہیں کیوں کہ آن لائن لرننگ قائم رہے گی۔کیا ایم او او سی کا پاکستان میں کوئی مستقبل ہو سکتا ہے؟اس کا جواب ہے یقینی طور پر جی ہاں۔کیوں کہ پاکستان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے حصول کے لیے ذرائع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے پاس وسائل کی کم ہے۔پاکستان میں اس وقت 25ملین میں سے 24ملین 17سے23سال کی عمر کے وہ طلبہ ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونی ورسٹی تک رسائی سے محروم ہیں۔ لہٰذا یہ طریقہ تعلیم ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہمیں ایم او او سی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ آگاہی اور رسائی ممکن بنانے کے لیے بھر پور کوشش کرنا ہو گی۔‘‘
پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب کئی دہائیوں پرانا ہو چکا ہے ۔ ایم او او سی میں جدید موضوعات اور طریقہ تعلیم پر مشتمل کورسز کے ذریعے اس کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن اور ٹریننگ میں دنیا کے144ممالک میں پاکستان 124ویں نمبر پر آتا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے ۔لہٰذا ایم او او سی کے ذریعے افراداپنے طور پر بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر مفت اعلیٰ تعلیم کو مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔انفرادی حیثیت کے افراد انتہائی کم بجٹ میں اپنے علاقے کی بہبود کے لیے بھی کام کر سکتے ہیں۔ مثلاً وہ افراد جن کے پاس ایک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنکشن کی سہولت موجود ہے وہ ہفتے کا ایک دن علاقے کے کم پڑھے لکھے اور غریب افراد کی تعلیم کے لیے وقف کر سکتے ہیں۔
ایم او او سی کاطریقہ تعلیم کم سے کم بجٹ اور محدود انفراسٹرکچر میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ایسے دور دراز علاقے جہاں نقل و حمل اور دوسری سہولیات پہنچانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں بھی ایم او او سی کا ذریعہ تعلیم محدود وسائل میں اچھی طرح متعارف کرایاجا سکتا ہے۔
قدرت نے پاکستان کو بے شمار معدنی ، آبی، نباتاتی وسائل سے نوازا ہے۔ البتہ ان وسائل سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے درکار افرادی وسائل کا پاکستان میں فقدان رہا ہے اس کی اولین وجہ ناخواندگی ہے۔ایم او او سی افرادی وسائل کو بڑھانے میں کافی مدد کر سکتا ہے۔ وہ پیشہ ور اور ہنر مند افراد جو وقت کی کمی کے سبب روایتی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں وہ اپنی قابلیت اور ہنر کی استعداد بڑھانے کے لیے اس طریقہ تعلیم سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایم او او سی بالغان کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔
پاکستان میں خواتین کو بنیادی تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یونیسکو کی 2012کی رپورٹ کے مطابق 19سے24سال کے نوجوانوں کی شرح خواندگی مردوں میں 79فی صد جب کہ خواتین میں61.5فی صد ہے۔ایم او او سی تعلیم کی جنسی خلیج کو کم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔دیہی اور دیگر گھریلو خواتین گھر بیٹھے اس مفت ذریعہ تعلیم کو اپنا سکتی ہیں۔ایم او او سی کے مختلف پلیٹ فارمز پرروایتی تعلیم کے علاوہ سلائی کڑھائی ،میک اپ، کھانا پکانے سے لے کردیگر کئی گھر داری کے کورسزبھی موجود ہیں۔
ایم او او سی جہاںتعلیم حاصل کرنے اور تعلیم کے فروغ کے لیے پیش آنے والے بے شمار مسائل کے حل میں مدد فراہم کر سکتا ہے وہاں خود کچھ چیلنجز کو بھی جنم دیتا ہے۔مثلاً بجلی اور انٹرنیٹ کی دستیابی ، انگریزی اور کمپیوٹر سے واقفیت وغیرہ۔ گلوبل ٹریکنگ فریم ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گذشتہ دو دہائیوں میں رقبے کے لحاظ سے بجلی کی فراہمی میں بڑی ترقی کی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں 60 فیصد آبادی، 2000ء کی دہائی میں 80 فی صد اور اب 91 فی صد آبادی کو سہولت حاصل ہو چکی ہے۔ جن میںدیہی آبادی کے 88 فی صد کو اور شہری آبادی کے 98 فی صد کو یہ سہولت میسر ہے۔ تاہم اسی رپورٹ کے مطابق بجلی کی اس فراہمی میں شہریوں کو لوڈشیڈنگ کی شدید تکلیف کا سامنا ہے۔ اسی طرح سارک ممالک میں انٹرنیٹ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان میں بلحاظِ آبادی مالدیپ کے بعدپاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جولائی 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2007 سے 2012 تک کے پانچ سالوں میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2007ء میں یہ تعداد آبادی کا دس فی صد تھی جو 2012ء میںبڑھ کر 16 فی صد سے زائد ہوگئی۔ اس کے مقابلے میں انڈیا 7.5 فی صد اور سری لنکا 12.1 فی صد ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 30 ملین سے زیادہ ہے۔ جن میں 15 ملین موبائل فون سے ویب برائوزنگ کرتے ہیں۔ جبکہ موبائل رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 120 ملین سے زیادہ ہے اور اس تعداد میں ہر مہینے ایک ملین کا نیا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب اعداد و شمار پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کے فروغ کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انٹرنیٹ کے اس وسیع پیمانے کے پھیلائو کو تعلیمی مقاصد کے لیے اور منِ حیث القوم شہری شعور اجاگر کر نے کے لیے مثبت اقدامات کیے جائیں۔ واضح رہے کہ صارفین کی 70 فی صد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے، چناچہ ایک نئی نسل جوکسی حد تک ٹیکنالوجی کے اس دور سے ہم آہنگ ہو رہی ہے، ملک کے مستقبل کے لیے ان کی تربیت کر کے محض کچھ سالوں میں ایک بڑی مثبت تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ہارورڈ ، آکسفورڈ، کیمبرج اور ایم آئی ٹی جیسے عظیم تعلیمی اداروں نے اپنی قوموں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کا مقصد دنیا بھر کے افراد کو زندگیوں کو بدلنا ہے تاکہ مستقبل کے چیلنجز کے لیے اعلیٰ اذہان تیار کیے جاسکیں۔ یہ مواقع ہمارے سامنے بھی موجود ہیں۔ ایک دانشور کے مطابق مستقبل کے ان پڑھ وہ افراد نہیں ہوں گے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ہو گے بلکہ ایسے افراد ہوں گے جو کچھ نیا سیکھنا اور نئی تخلیق کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ماہنامہ کمپیوٹنگ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک ٹیم ورک کے طور پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ مضمون اس مقصد کی ایک کاوش ہے۔اور ادارہ امید کرتا ہے کہ اس کے قارئین اس پیغام کو اپنی ہر ممکن حد تک عام کرکے یہ قومی فریضہ سر انجام دیں گے۔اگر آپ ایم او او سی کو تعلیمی بہبود کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو اپنی جدوجہد سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیے ، ہم آپ کی کہانیوں کو ماہنامہ کمپیوٹنگ کے بلاگ اور سوشل میڈیا کی زینت بنائیں گے۔
آگے ہم اپنی حتیٰ المکان تحقیق کردہ ایم او او سی پلیٹ فارمز ، اوپن کورس وئیر ز اور دیگر اوپن سورس ویب سائٹس کا مختصر تعارف اور ان کے ربط پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ علم کے اس سمندر میں باآسانی غوعہ لگا سکیں۔ان کے ربط و تفصیلات جلد ہی ہر خاص و عام کے لیے ماہنامہ کمپیوٹنگ کی ویب سائٹ پر بھی شائع کر دیے جائیں گے۔
Comments are closed.