انسانوں کو مریخ پر آباد نہیں ہونا چاہیے، لیکن کیوں؟
اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک نے رواں سال مریخ پر انسانوں کی آباد کاری کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ان کا منصوبہ ہے 2024ء تک مریخ پر پر انسانوں کو بھیجنا اور وہاں پہلے شہر کی بنیاد ڈالنا ہے لیکن کیا واقعی مریخ انسانوں کے لیے بہترین انتخاب ہے؟ امانڈا ہینڈرکس جیسی سائنس دان ایسا نہیں سمجھتیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دوسرے مقامات کو دیکھنا چاہیے جیسا کہ ٹائٹن کو، ایک چاند جو زحل کے گرد گھومتا ہے اور ہمارے چند سے تھوڑا سا بڑا ہے۔
امانڈا کا کہنا ہے کہ میں ہرگز مریخ کے بارے میں کوئی منفی رائے نہیں رکھتی۔ مجھے مریخ پسند ہے اور میرے خیال میں ہمیں وہاں جانا چاہیے دیکھنے کے لیے، سمجھنے کے لیے اور سائنسی تجربات کے لیے۔ لیکن طویل عرصے تک قیام کے لیے میرا نہیں خیال مریخ ایک بہتر مقام ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے تابکاری کے مسائل اور سب جانتے ہیں کہ مریخ کو برق مقناطیسی شعاعوں کے خلاف کوئی قدرتی تحفظ حاصل نہیں۔ اس کا کرہ ہوائی بہت ہی مہین ہے اور فضا میں کوئی مقناطیسی کرّہ رواں نہیں، اس لیے مریخ پر طویل عرصے تک رہنے کے خواہشمند انسانوں کو بڑا عرصہ زیر زمین گزارنا پڑے گا یا ایسے آلات میں جو انہیں ان شعاعوں سے بچا سکیں۔
دوسری جانب ٹائٹن ہے، جس کے پاس یہ قدرتی تحفظ موجود ہے، یعنی بہترین کرّہ ہوائی۔ ٹائٹن بہت انوکھا ہے کیونکہ یہ ایک چاند ہے اور اس کی سطح مضبوط ہے، یہ ایک برفیلا سیارچہ ہے لیکن اس کا کرۂ ہوائی بہت مضبوط ہے اور یہی اس کی خاصیت ہے کیونکہ پورے نظام شمسی میں ایسا کرہ ہوائی کسی دوسرے چاند کا نہیں۔ اس کی فضا میں زیادہ تر نائٹروجن ہے اور 1 سے 2 فیصد میتھین بھی۔ واضح رہے کہ زمین کی طرح اس کی فضا میں آکسیجن نہیں ہے اس لیے وہاں رہنے والے انسانوں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن بنانا پڑے گی جو بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ ٹائٹن کی سطح پر اور زیر زمین منجمد H²O کافی موجود ہے۔ اس لیے انسان بغیر کسی بڑے مسئلے کے اس سے آکسیجن نکال سکتا ہے۔
ایک اچھا حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک عارضی اور مختصر عرصہ قیام کے لیے مریخ پر کالونی بنائی جائے اور اسے ٹائٹن تک پہنچنے کے لیے پہلی منزل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ ایک شاندار آئیڈیا ہوگا۔ امانڈا نے کہا کہ ایلون مسک جیسے شخص کو ٹائٹن پر کام کرنا چاہیے اور اس کے لیے پروپلژن سسٹم تیار کرنا چاہیے۔
Comments are closed.