انسانی فضلہ، مستقبل کا ایندھن؟
زمین کے ساتھ ایک مسئلہ ہے، یہاں انسان رہتے ہیں اور تمام جانداروں کی طرح یہ بھی فضلہ پیدا کرتے ہیں۔ اگر ان کے بول و براز کو بغیر ٹریٹ کیے چھوڑ دیا جائے تو یہ آبی ذخائر کو زہر آلود اور دریاؤں و ساحلی علاقوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ پھر پینے کے صاف پانی اور بیت الخلاء کی عدم موجودگی اس جدید دور میں بھی غیر ترقی یافتہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ ترقی یافتہ علاقوں میں بھی محفوظ نکاسی آب پر بڑا سرمایہ لگتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہماری زندگی کا یہ ‘بدبودار’ پہلو کسی کام آ جائے؟ چند سائنس دان واقعی اس پر کام کر رہے ہیں جنہوں نے انسانی فضلے کو توانائی میں ڈھالنے کے طریقے ڈھونڈے ہیں، وہ گھروں کو روشن کر رہے ہیں اور گاڑیوں کے لیے ایندھن بنا رہے ہیں۔ یعنی چند ‘بدبو دار’ آئیڈیاز ہیں، جو انسانی زندگیوں میں بڑا انقلاب لا رہے ہیں۔
ان اچھوتے خیالوں میں سے ایک ہے، انسانی پیشاب کی مدد سے بجلی بنانا۔ یہ یونیورسٹی آف دی ویسٹ آف انگلینڈ کے سائنس دان ہیں جنہوں نے چھوٹے سے اور چلتے پھرتے پاور اسٹیشن بنائے ہیں جو مائیکروبیل فیول سیلز (microbial fuel cells) کہلاتے ہیں، یہ پیشاب کو بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں جسے چھوٹے کمروں کو روشن کرنے یا چھوٹے موٹے برقی آلات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ فیول سیلز ویسے ہی بڑے دلچسپ ہیں کیونکہ ان میں بیکٹیریا ہیں، ایسے جراثیم جو بحری جہازوں کے نیچے اور سمندروں میں نصب تیل کے کنوؤں میں عام پائے جاتے ہیں۔ یہ الیکٹروڈز پر پنپتے ہیں اور پیشاب کے نامیاتی مادّوں پر پل کر الیکٹرونز کا چھوٹا سا کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ ایوانس ایروپولوس اس یونیورسٹی کے پروفیسر اور ڈائریکٹر برسٹل بایوانرجی سینٹر ہیں اور اس منصوبے کے رہنما ہیں، ان کا کہنا ہے کہ "یہ ٹیکنالوجی نہ صرف فضلے کے پانی کو صاف کرتی ہے بلکہ نکاسی آب اور حفظان صحت کے معاملات کو بھی بہتر بناتی ہے، اور ساتھ ساتھ بجلی بھی پیدا کرتی ہے۔”
سائنس دان انسانی پیشاب سے چلنے والے ان فیول سیلز کی مدد سے ایک اسمارٹ فون بھی چارج کر چکے ہیں۔ وہ الگ بات کہ اس کی بیٹری چارج کرنے میں انہیں 64 گھنٹے لگ گئے۔ اصل میں یہ سیلز ایک ایمپیئر سے بھی کم، یا لگ بھگ تین وولٹس، بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن ایروپولوس کا ماننا ہے کہ اس عمل کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کے ان علاقوں میں جہاں نکاسی آب کی سہولیات بھی کم ہیں اور بجلی کا بھی بحران ہے، وہاں یہ منصوبہ ڈرامائی اثرات مرتّب کر سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جنہیں محفوظ نکاسی آب کی سہولت میسر نہیں جبکہ 1.2 ارب ایسے ہیں جو بجلی تک رسائی نہیں رکھتے۔
جولائی میں اس ٹیم نے یوگینڈا میں لڑکیوں کے ایک اسکول کے بیت الخلاء میں یہ فیول سیلز نصب کیے تاکہ ان غسل خانوں کو روشن رکھا جا سکے۔
یہ ٹیکنالوجی ترقی یافتہ ممالک میں بھی استعمال ہو سکتی ہے، ایروپولوس کا کہنا ہے کہ "دنیا بھر میں ہر گھنٹے فضلے کے پانی کی بہت بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔ اگر اس کو استعمال میں لائیں تو گھریلو سطح سے لے کر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس تک میں مختلف آلات کو چلانے کا کام لیا جا سکتا ہے۔”
انسانی جسم سے خارج ہونے والے ٹھوس فضلے کے ذریعے بھی بجلی بنانے کے منصوبے موجود ہیں۔ ایروپولوس بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو ٹھوس فضلے کو کام میں لانے کے لیے طریقے بنا رہے ہیں۔ ایروپولوس کا کہنا ہے کہ انسان کے ٹھوس فضلے میں زیادہ جراثیم ہوتے ہیں، اس لیے یہ زیادہ توانائی پیدا کر سکتا ہے۔
برسٹل، انگلینڈ میں ویسیکس واٹر نامی ایک بایو گیس پلانٹ پہلے ہی موجود ہے جو گندے پانی کو روزانہ 56 ملین لیٹر بایومیتھین میں تبدیل کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر تمام انسانی فضلے کو بایوگیس میں تبدیل کردیا جائے تو اس سے 138 ملین گھرانوں کو بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
یہی نہیں، بلکہ ہماری آبادیوں کے نیچے سے بہنے والی اس غلیظ دنیا میں اور بھی بہت کچھ ہے جو استعمال میں لایا جا سکتا ہے، جیسا کہ گٹر لائنوں کی چکنائی، وہی جو نکاسی آب میں سخت رکاوٹ ڈالتی ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ لندن میں سیوریج کی لائن سے 250 میٹر طویل ایسی ہی چکنائی نکالی گئی یعنی ویمبلے کے مشہور زمانہ فٹ بال اسٹیڈیم سے بھی دوگنی لمبی۔ اس کا وزن 130 ٹن تھا اور اسے نکالنے میں انتظامیہ کو تقریباً تین ہفتے لگے۔ لیکن اس چکنائی کو ٹھکانے نہیں لگایا گیا بلکہ شمالی انگلینڈ میں ایک جدید پروسیسنگ پلانٹ بھیج دیا گیا، جہاں اسے 10 ہزار لیٹر بایوڈیزل میں بدلا جائے گا اور یوں بسوں اور ٹرکوں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوگا۔
یہ پلانٹ ‘ارجنٹ انرجی’ کہلاتا ہے، جس کے پاس ایسا طریقہ ہے جس سے بدبو دار اور غلیظ چکنائی کے یہ پہاڑ صاف بایو ڈیزل میں تبدیل کیے جاتے ہیں اور اسے عام ڈیزل کے ساتھ ملا کر معیاری ڈیزل انجنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ارجنٹ انرجی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے سیوریج اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس سے ہر سال 3 سے 4 لاکھ ٹن چکنائی نکالی جاتی ہے۔ البتہ اس وقت ارجنٹ انرجی کے پلانٹ کو برمنگھم سے ہر ہفتے 30 ٹن چکنائی موصول ہو رہی ہے جس سے یہ 2 ہزار لیٹر ایندھن تیار کرتا ہے۔ لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر آپریشنل ہونے پر ہر سال 90 ملین لیٹر بایوڈیزل تیار کر سکتا ہے۔
یعنی یہ صرف آئیڈیا ہے جو انتہائی ناپسندیدہ اور بیکار چیز سے بھی کام لے سکتا ہے اور یوں تمام انسانوں کے لیے ایک بہتر مستقبل تیار کر سکتا ہے۔
Comments are closed.