مصنوعی ذہانت سے چھاتی کے کینسر کی تشخیص میں بڑی کامیابی
انٹرنیٹ پر مصنوعی ذہانت کے استعمال میں گوگل نمایاں نظر آتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب گوگل نے مصنوعی ذہانت سے تصاویر میں مختلف اشیاء جیسے جانور، عمارتیں اور درختوں شناخت کرنا شروع کیا تھا۔ اب گوگل نے مصنوعی ذہانت کے استعمال میں ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔گوگل مصنوعی ذہانت کے استعمال سے چھاتیوں کے سرطان کی تشخیص کر سکتا ہے۔گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کا مصنوعی ذہانت کا حامل نظام چھاتی کی سرطان کی تشخیص بے حد درستگی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ اس کامیابی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کس قدر ترقی کرچکی ہے اور اس میں انسانوں کی صحت بہتر بنانے کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔
گوگل نے مصنوعی ذہانت کی ایک قسم ڈیپ لرننگ کو استعمال کرتے ہوئے سرطان کے خلیوں کی ہزاروں تصاویر کا تجزیہ کیا۔ گوگل کو یہ تصاویر نیدرلینڈ کی ایک یونیورسٹی نے فراہم کی تھیں۔ ڈیپ لرننگ میں کمپیوٹروں کو بہت بڑے ڈیٹا میں سے پیٹرن شناخت کرنے کا طریقہ کار سکھایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ تصاویر کو شناخت کرنے کے لئے بے حد کارآمد ثابت ہوا ہے۔ چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لئے چھاتی سے حاصل کئے گئے نمونے (بائیوپسی) کی تصاویر کا مشاہدہ کرنا بھی تصاویر شناخت کرنے جیسا ہی عمل ہے ۔ اس لئے گوگل کا یہ تکنیک بہت کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
صرف امریکا میں ہر سال چھاتیوں کے سرطان کے 2 لاکھ 30 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ صورت حال مزید پیچیدہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے ہر سال 83 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں اور ہر 9 میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں چھاتی کے سرطان کا شکار ہوجاتی ہے۔ چھاتی کے سرطان کی اگر تشخیص جلدی ہوجائے تو اس کا مکمل علاج ممکن ہے۔
گوگل کو امید ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی کی بدولت پیتھالوجسٹ مریضوں کا بہتر علاج کر سکیں گے۔یہ ٹیکنالوجی انسانی ڈاکٹروں کی معاونت کے لیے بنائی گئی ہے، یعنی یہ ٹیکنالوجی ڈاکٹروں کا نعم البدل نہیں ہے۔ گوگل کے اس پراجیکٹ کی منیجر للی پنگ نے سی این این ٹیک کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت کا یہ سسٹم سرطان کا شکار خلیوں کی شناخت میں بہت حساس ہے۔ یہ ایسی علامات کو بھی پکڑ لیتا ہے جو انسان نظر انداز کردیتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ نظام سو فیصد درست کام کرتا ہے۔ بعض اوقات یہ کسی صحت مند خلیے کو بھی سرطان ذدہ خلیے کے طور پر شناخت کرلیتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جہاں پیتھا لوجسٹ فیصلہ کرتا ہے کہ نہیں، یہ سرطان ذدہ خلیہ نہیں ہے۔
فی الحال گوگل کا یہ سسٹم تیاری کے مراحل میں ہے۔ گوگل کا ارادہ جلد ہی آپ کا پتھالوجسٹ بننے کا نہیں ہے لیکن مستقبل میں گوگل اور دوسری ٹیکنالوجی کمپنیوں کی کوششوں سے ایسا ممکن ہوسکے گا۔ گوگل کی یہ ٹیکنالوجی دنیا کے ایسے خطوں کےلیے زیادہ موثر ہوگی جہاں سرطان کی تشخیص کرنے والے پیتھالوجسٹ یا تو موجود نہیں یا پھر بہت کم تعداد میں ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا جیسے ممالک میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے سرطان کی جلد تشخیص کرکے اس سے ہونے والی اموات میں کمی کی جاسکے گی۔ توقع ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اگلے پانچ سے چھ سال میں ہسپتالوں میں نظر آنا شروع ہوجائے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 126 میں شائع ہوئی
اگر آپ یہ اور اس جیسی درجنوں معلوماتی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں تو گھر بیٹھے کمپیوٹنگ کا تازہ شمارہ حاصل کریں۔
Comments are closed.