اینڈروئیڈ پر پاس ورڈ کے اندراج کو آسان بنانے کے لیے گوگل نے نیا منصوبہ شروع کر دیا
گوگل کی پاس ورڈز کے خلاف جنگ اگلے مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔ اب ایک اوپن سورس پاس ورڈ منیجر سسٹم آپ کو فون میں نصب ایپلی کیشنز میں لاگ ان کرے گا۔ گوگل نے ڈیش لین(Dashlane) اور دوسرے پاسورڈ منیجرز سے شراکت داری کرنے کے بعد ایک نیا پروجیکٹ شروع کیاہے۔ گوگل نےاسے پروجیکٹ اوپن یولو(Open Yolo) کا نام دیاہے۔
یولو You only login onceکا مخفف ہے۔اس پروجیکٹ کا مقصد تھرڈ پارٹی ایپلی کیشنز اور پاسورڈ منیجرز کے مابین محفوظ لنک فراہم کرنا ہے۔ اس سسٹم کی وجہ سے صارفین کو اپنے پاسورڈ منیجرمیں صرف ایک بار ہی لاگ ان ہونا پڑےگا۔ اس کے بعد صارفین یوزر نیم یا پاس ورڈ دوبارہ ٹائپ کیے بغیر ایپلی کیشنز میں لاگ ان کر سکیں گے۔
ڈیش لین کی کمیونٹی منیجرملائیکا نکولس کا کہناہے کہ مارکیٹ ڈیمانڈ سے ایک قدم آگے رہتےہوئے گوگل اور ڈیش لین سب کےلیے قابل قبول اینڈروئیڈ ایپلی کیشن تصدیقی سسٹم بنا رہے ہیں ، جس سے آپ کی آن لائن سکیوریٹی زیادہ محفوظ ہوگی۔ملائیکا کا کہنا ہے کہ مستقبل میں یہ نظام صرف اینڈروئیڈ تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر پلیٹ فارمز اور آپریٹنگ سسٹمز کے لئے بھی بطور پاس ورڈ منیجر استعمال کیا جاسکے گا ۔
اس وقت بھی بہت سے پاسورڈ منیجرزصارفین کواینڈروئیڈ اسمارٹ فون کے accessibility فیچر کو استعمال کرتے ہوئے لاگ ان کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ اصل میں ورچوئل کی بورڈ ہوتا ہے جو صارفین کی تفصیلات پاس ورڈ فیلڈ میں درج کر دیتا ہے۔ تاہم یہ نظام زیادہ مستحکم ہے نہ زیادہ قابل قبول۔ ایپل نے آئی او ایس میں اس سے بھی آسان سہولت متعارف کرائی ہے۔ آئی اوایس میں پاسورڈ منیجرز کو براہ راست پاسورڈ باکسز سے لنک کر دیا جاتا ہے لیکن چند ایپلی کیشن ہی اس فیچر کو سپورٹ کرتی ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=mlCrLTwZtNg
اس وقت ایک ہی پاس ورڈ کو دوسری ویب سائٹس پر استعمال کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایک ویب سائٹ سے پاس ورڈ چوری ہوجائیں تو وہ ہیکر انہیں دوسری ویب سائٹس پر بھی استعمال کر سکتےہیں۔ گزشتہ دنوں اسی طرح کا ایک واقعہ ڈراپ باکس کے ملازم کے ساتھ پیش آیا۔ اس نے ڈراپ باکس کے اہم حصے کا پاس ورڈ وہی رکھا جو کہ اس کے اپنے لنکڈ اِن اکاؤنٹ کا تھا۔ لنکڈان کا ڈیٹا ہیک ہوا تو ہیکروں نے اس ملازم کے پاس ورڈ کی مدد سے ڈراپ باکس کے 68 ملین صارفین کی معلومات چرا لیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صارفین کو اپنا پاس ورڈ 14 حروف سے زیادہ رکھنا چاہیے۔
تاہم ایک اوسط درجے کے صارف کے لیے اس طرح اپنے پاس ورڈ یاد رکھنا مشکل ہونگے۔ ایسی صورت میں بائیومیٹرک سسٹم جیسے فنگر پرنٹ سنسر یا آئیرس سنسر اچھی سکیوریٹی فراہم کر سکتے ہیں مگر انہیں ہرجگہ استعمال کرنا ممکن نہیں۔
گوگل کی ڈیشن لین کے ساتھ شراکت داری پاسورڈ سے نجات حاصل کرنے کی پہلی کوشش نہیں۔اس کے پش نوٹی فکیشن سسٹم نے گوگل پراڈکٹس میں لاگ ان کے لیے کئی ویری فیکیشن کوڈز کی ضرورت ختم کر دی ہےسایپل نے بھی ایک ایسا سسٹم متعارف کرایا ہےجس میں ایپل واچ پہننے والے Mac لیپ ٹاپ میں آسانی سے لاگ ان ہوسکیں گے۔یہ سسٹم صارفین کے میک سے فاصلے کی بنیاد پر پاس ورڈ کی ضرورت کو ختم کرتا ہے۔
Comments are closed.