وٹس ایپ بمقابلہ گوگل اَلو منفرد فیچرز جوصرف گوگل الو میں موجود ہیں
کامیاب میسجنگ ایپلی کیشنز جیسے کہ گوگل ٹالک اور گوگل ہینگ آؤٹس بنانے کے بعد اب گوگل نے اپنی کاوش ’’الو‘‘ (Allo) کی صورت میں پیش کر دی ہے۔ یہ نئی میسجنگ ایپلی کیشن اس میدان میں پہلے سے موجود کھلاڑیوں جیسے کہ وٹس ایپ، ٹیلی گرام اور مسینجر کو کڑی ٹکر دے رہی ہے۔
اگر آپ نے ابھی تک گوگل الو کو نہیں آزمایا تو اسے ایپ اسٹور سے مفت انسٹال کر سکتے ہیں۔ اس کی تفصیلات درج ذیل ربط پر بھی موجود ہیں: allo.google.com
چونکہ گوگل کو اندازا ہے کہ اس حوالے سے پہلے ہی بہترین ایپلی کیشنز موجود ہیں اس لیے اسے کچھ انوکھا انداز اپنانا ہو گا تاکہ صارفین کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ گوگل کی یہ ایپلی کیشن بہت ہی اسمارٹ اور منفرد فیچرز کی حامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیلی گرام، وٹس ایپ کا بہترین متبادل
عام میسجنگ ایپلی کیشن کی طرح اسے بھی آپ بات چیت کرنے اور میڈیا فائلز کے تبادلے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کے منفرد فیچرز کیا ہیں جو اسے وٹس ایپ سے بھی بہتر بناتے ہیں وہ ہم آپ کو بتا دیتے ہیں۔ یہ ایسے فیچرز ہیں جو آپ کو وٹس ایپ میں نہیں ملیں گے بلکہ انھیں جاننے کے بعد آپ گوگل الو کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
گوگل معاون
گوگل الو میں اسسٹنٹ کے نام سے ایک خودکار معاون آپ کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا ہے اگر آپ کسی دوست کے ساتھ باہر کھانا کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ فوراً قریبی ہوٹلوں کے نام پیش کر دے گا، اگر آپ فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ سنیما گھروں کی تفصیل سامنے رکھ دے گا۔ اگر آپ سفر کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کی فلائٹ کی یاددہانی کرائے گا۔
اگر آپ کے پاس چیٹ کرنے کے لیے دوست دستیاب نہیں تو یہ معاون آپ کے بہت کام آ سکتا ہے۔ یہ آپ کے لیے اقوال زریں اور نظمیں پیش کر سکتا ہے، موسم کا حال بتا سکتا ہے، کھیل کھیل سکتا ہے، سوالوں کے جواب دے سکتا ہے غرض جو بھی بات آپ اس سے جاننا چاہیں یہ آپ کو فوراً جواب دے گا۔
گوگل الو کا یہ ذاتی معاون انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے اور اس میسجنگ ایپلی کیشن کو انتہائی خاص بنا دیتا ہے۔ دوسری جانب وٹس ایپ کو دیکھا جائے تو وہ ایک عام اور سادہ سی میسجنگ ایپلی کیشن لگتی ہے۔
اِنکوگنیٹو چیٹ موڈ
وٹس ایپ اور الو دونوں میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کی سہولت موجود ہے جو آپ کی بات چیت کو انتہائی محفوظ بنا دیتی ہے۔ لیکن گوگل الو میں موجود Incognito Chat Mode انکرپشن کے ساتھ اسے مزید محفوظ بنا دیتا ہے۔ انکوگنیٹو چیٹ موڈ میں آپ وقت مقرر کر سکتے ہیں کہ کتنی دیر بعد یہ چیٹ خود بخود طریقے سے ختم ہو جائے۔
یہ بھی پڑھیے: فیس بک پر خفیہ اور خود بخود ڈیلیٹ ہو جانے والے پیغام بھیجیں
اسمارٹ رپلائی
گوگل الو کا ایک اور بہترین فیچر Smart reply کی صورت میں موجود ہے۔ اس فیچر کے لیے آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ فیچر آپ کو موصول ہونے والے پیغام کو سمجھ کر چند جوابات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔
مثلاً اگر آپ کا کوئی دوست کوئی خوشخبری سنائے گا یا خوبصورت تصویر بھیجے گا تو یہ فیچر آپ کے لیے اسی حساب سے چند جوابات فوراً سامنے پیش کر دے گا۔ اس طرح آپ بغیر کچھ ٹائپ کیے کسی جواب کو منتخب کر کے فوراً بھیج سکیں گے۔
ٹیکسٹ فارمیٹنگ
وٹس ایپ میں دیکھا جائے تو ٹیکسٹ فارمیٹنگ کے لیے صرف چند انداز دستیاب ہیں اور انھیں بھی استعمال کرنے کے لیے ٹیکسٹ کے دائیں بائیں کوڈز کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ عام صارفین کو سمجھ نہیں آتے۔ جب کہ گوگل الو میں اس سے بہتر ٹیکسٹ فارمیٹنگ موجود ہے۔ الو میں آپ کچھ لکھ کر Send کے بٹن کو دبا کر رکھیں تو فوراً ایک سلائیڈر ظاہر ہو جائے گا۔ اس سلائیڈر کو اوپر نیچے کرتے ہوئے آپ ٹیکسٹ کا سائز بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تصاویر بھیجتے وقت ان پر ڈوڈلز بھی بنا سکتے ہیں یعنی اپنے ہاتھ سے ان پر کچھ لکھ سکتے ہیں۔
نئے اسٹکرز
اسٹکرز کے معاملے میں وٹس ایپ ابھی بہت پیچھے ہے۔ چونکہ صارفین اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے اسٹکرز بھیجنا پسند کرتے ہیں اس لیے تقریباً تمام میسجنگ ایپلی کیشنز میں نت نئے اسٹکرز شامل کیے جاتے ہیں سوائے وٹس ایپ کے۔
صارفین کی اسی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے گوگل نے الو میں کئی نئے دلچسپ اور منفرد اسٹکرز شامل کیے ہیں۔
حرف آخر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وٹس ایپ دنیا کی نمبر ون میسجنگ ایپ ہے اور فی الحال اس کی اجارہ داری ختم کرنا انتہائی مشکل ہے، وائس کالنگ تو وٹس ایپ میں پہلے سے ہی موجود تھی اور اب وڈیو کالنگ کی آمد کے بعد وٹس ایپ ایک مکمل میسجنگ ایپلی کیشن بن چکی ہے لیکن چونکہ گوگل بھی اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ الو اگر دنیا کی نمبر ون میسجنگ ایپلی کیشن نہ بھی بنی تو کم از کم وٹس ایپ کے لیے کئی مشکلات ضروری کھڑی کرے گی۔
گوگل الو کے ابتدائی ورژن میں آپ یہ لاجواب فیچرز جان کر یقیناً ہماری بات سے اتفاق ضرور کریں گے۔
یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ نمبر 123 میں شائع ہوئی
Comments are closed.