کیا وائی فائی کی لہریں انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں؟
کہتے ہیں کہ جدید تحقیق نے انسان کو خوف زدہ کر رکھا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے جراثیموں کی دہشت اتنی نہ تھی، اب تو یہ حال ہے کہ مشترکہ صابن استعمال کرنے سے بھی جراثیم پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ اب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دُھلنے کے باوجود نہ صرف برتنوں میں جراثیم رہ سکتے ہیں بلکہ یہ آپ کے کپڑوں میں بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ ابھی ہم جراثیموں سے بچ بچاؤ کرنے میں مصروف تھے کہ پتا چلا موبائل فون زیادہ دیر تک کان سے مت لگائیں اور اسے سامنے والی جیب میں بھی مت رکھیں کیونکہ اس کے سگنلز آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس فہرست کو مزید آگے بڑھائیں تو وائی فائی کی ریڈیائی لہریں آپ کے جسم سے آرپار ہونے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ ہم جہاں کہیں جائیں سب سے پہلے وائی فائی کا پاس ورڈ مانگتے ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ وائی فائی کی یہ لہریں جو ہر وقت ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں، ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں؟ آئیے اس حوالے سے ایک غیرجانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں۔
ریڈیائی لہریں ہمیشہ سے مطالعے کا موضوع رہی ہیںکیوں کہ یہ کئی طریقوں سے مدد کرتی ہیںمثلاً ذرائع ابلاغ، جی پی ایس وغیرہ۔یہی ریڈیو لہریں آپ کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں لاسلکی کام کرنے کے قابل بناتی ہیں۔وائی فائی لہریں ریڈیو لہروں پر مشتمل ہوتی ہیں۔آج وائی فائی اتنا عام ہے کہ آپ وائی فائی کی لہروں میں رات دن گھرے رہتے ہیں۔کیا آپ کو وائی فائی کی لہروں کی وجہ سے طبّی اثرات کا کوئی تجربہ ہوا ہے؟ آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ کیا وائی فائی واقعی خطرناک ہے اور اس کے سگنلز کے صحت پر کیا اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔
پہلے ہم یہ جائزہ لیں گے کہ وائی فائی کیسے کام کرتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ وائی فائی روٹر سے شروع ہوتا ہے اور آپ کی وائی فائی ڈیوائسز پر آکر ختم ہوتا ہے۔ یہ بالکل بلیو ٹوتھ اور سیل فون کی طرح کا عمل ہے۔(دراصل بلیوٹوتھ ٹیکنالوجی وائی فائی ٹیکنالوجی کا ہی ایک حصّہ ہے)۔ اگرچہ سیل فون یا بلیو ٹوتھ کے برعکس وائی فائی سگنلز جسم کے کسی خاص حصّے پر مرتکز نہیں ہوتے۔آپ سیل فون کو دائیں یا بائیں کان سے لگاتے ہیں اور جتنا آپ بات کرتے ہیں اتنا ہی دماغ کے خاص حصّے میں ریڈیو لہریں اتارتے جاتے ہیںاور یہ عمل ہر کال پر دُہرایا جاتا ہے۔ آپ کی کھوپڑی سیل فون کے سگنلز دماغ میں اترنے سے نہیں روک سکتی۔
وائی فائی کی لہریں زیادہ توانائی والی ہوتی ہیں۔ لیکن چوںکہ اس میں ڈیوائسز کو چھونے کے لیے جسم کا کوئی خاص حصّہ مقرر نہیں ہوتا لہٰذا خطرہ مقابلتاً کم تر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ آپ کے جسم اور ڈیوائس میں کچھ فاصلہ ہوتا ہے اس لیے یہ خطرہ مزید کم تر ہو جاتا ہے۔وائی فائی روٹر میز پر یا دیوار پر لگایا جاتا ہے اور آپ کا روٹر کے پاس دیر تک کھڑے رہنے کا کام نہیں ہوسکتا اس لیے وائی فائی ڈیوائسز استعمال کرتے وقت روٹر آپ کے جسم سے کافی دور ہوتا ہے اور وائی فائی ڈیوائس میں بھی جسم سے فاصلہ ہوتا ہے۔
سیل فون کے معاملے میں آپ اپنا فون بستر پر لے جاتے ہیں اور غالباً سر کے نزدیک رات بھر رکھتے ہیں۔ یہ رات بھر آپ کے سرہانے رہتا ہے اور(زیادہ تر سیلولر سگنلز کی وجہ سے) صحت کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ دیگر ڈیوائسز جیسے لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ وغیرہ کی جگہیں بدلتی رہتی ہیںاور آپ انہیں محدود وقت میں استعمال کر کے دور رکھ دیتے ہیں۔ لہٰذا آپ کے جسم کے کسی بھی حصّے پر وائی فائی ریڈیو لہریں مرتکز نہیں ہو پاتیں ۔ وائی فائی کا اس طرح سے استعمال سیل فون کے مقابلے میں صحت کے نقصانات کو کم کر دیتا ہے۔
یہاں یہ نہیں کہا جا رہا کہ وائی فائی محفوظ ہے اور یہ نقصان دہ لہریں استعمال نہیں کرتا، تاہم یہ سیل فون کے طریقہء استعمال سے زیادہ محفوظ ہے۔ اگرچہ سیل فون کی ریڈیائی لہروں کی توانائی ، وائی فائی میں استعمال ہونے والی ریڈیائی لہروں کی توانائی سے کم ہوتی ہے تاہم سیل فون میں ریڈیائی برقی مقناطیسی لہریں جسم کے ایک ہی حصّے پر بار بار اثر انداز ہوتی ہیں۔سائنس دان وائی فائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی ریڈیائی برق مقناطیسی لہروں پر عرصے سے تحقیقات کرتے آرہے ہیں اور انہیں خدشات ہیں کہ وائی فائی لہریں کینسر کا باعث ہو سکتی ہیںتاہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق کوئی تحقیق اس ضمن میں فی الحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ 2011میں انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (IARC)نے وائی فائی کو ’’انسانوں کے لیے ممکنہ کینسر پیدا کرنے والا عاملِ سرطان زا یعنی Carcinogenکا درجہ دیا ہے۔‘‘
وائی فائی کے حوالے سے کچھ ایسے خاص عوامل ہیں جو اسے نقصان دہ بناتے ہیں اور ان عوامل کی معلومات سے ہم ان نقصانات میں بہت حد تک کمی لاسکتے ہیںاور مستقبل میں ان سے متعلق خدشات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔
ریڈیائی تعدادِ امواج کے احاطے سے باہر نکلنا آسان بھی نہیں جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ وائی فائی سگنلز ہر جگہ موجود ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔اگر آپ رات میں اپنا وائی فائی بند کر دیتے ہیں تو پڑوس سے آنے والے وائی فائی سگنلز تب بھی آپ کا جسم وصول کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب آپ اپنا وائی فائی رابطہ (کنکٹی ویٹی) کھولتے ہیں تو ڈیوائس آپ کو متعدد وائی فائی رابطے ظاہر کرتی ہے۔جتنے زیادہ نیٹ ورک ہوں گے اتنا ہی زیادہ آپ ریڈیائی لہروں میں شرابور رہیں گے نتیجتاً آپ کی صحت کو اتنا ہی زیادہ خطرات لاحق ہوں گے۔
وائی فائی کیا ہے؟
وائی فائی ایک رجسٹرڈ تجارتی نشان (ٹریڈ مارک) ہے جو وائی فائی الائنس کی ملکیت ہے ۔ وائی فائی الائنس کے مطابق وائی فائی کوئی بھی وائرلیس لوکل ایریا نیٹ ورک (WLAN) ہے۔اس تعریف کے مطابق وائی فائی میںربط کے لیے کوئی تار استعمال نہیں کیا جاتا یہ ریڈیائی لہروں کی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے۔ ویبو پیڈیا (webopedia.com) ریڈیو تعددِ امواج کی تعریف یوں کرتی ہے ’’وہ تعددِ امواج جو برق مقناطیسی طیف (اسپیکٹرم) ریڈیو لہروں کے حصّے میں موجود ہو۔‘‘ یہاں ان مختلف تعددِ امواج کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے جو ریڈیو برق مقناطیسی شعاعوں کے طیف کے اس حصّے سے تعلق رکھتی ہے جو ذرائع ابلاغ اور مواصلات میں استعمال ہوتی ہیں۔ ایف ایم ریڈیو (VHF) یعنی ویری ہائی فریکوئنسی میں کام کرتی ہیں جس کی پہنچ 88سے 110MHzہوتی ہے۔اینا لاگ ٹی وی 400-600 MHz ، ڈیجیٹل ٹی وی600-1000MHz ، سیل فون 850-1900MHz (0.8-1.9GHz) جو (UHF) یعنی الٹرا ہائی فریکوئنسی کی پہنچ ہے۔ جس میں اب 3Gاور 4Gٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی تعددِ امواج 2400MHzیعنی2.4GHzتک آپہنچی ہے۔ واضح رہے جتنی زیادہ تعددِ امواج ہو گی اتنی ہی زیادہ توانائی ہو گی چناںچہ اتنی ہی زیادہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
وائی فائی کے کیرئیر سگنل کی پہنچ 2.5GHzہے جو تقریباً (SHF) یعنی سپر ہائی فریکوئنسی میں ہے۔جن میں کچھ مزید ڈیوائسز 5-6GHzکی پہنچ میں کام کرتی ہیں۔ڈیجیٹل پَلس سگنل والی وائی فائی ڈیوائسز سے نکلنے والی لہریں دیواروں، چھتوں، زمینوں اور انسانوں کے اندر سرائیت کر جاتی میں۔ وائی فائی شعاعوں کو مائیکرو ویو شعاعیں بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ مائیکرو ویو شعاعیں 300MHzسے لے کر 300GHzکی پہنچ میں ہوتی ہیں۔
وائی فائی اور انسانی صحت کو لاحق خطرات
1997میں پہلی بار وائی فائی متعارف کرایا گیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک محققین اس موضوع پر بے شمار تحقیقات کر چکے ہیں۔ ان تحقیقات کے نتائج اگرچہ وائی فائی کے مضر اثرات کی مکمل تصدیق نہیں کرتے تاہم کئی تحقیقات سے جنم لینے والے شکوک دلیل دیتے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی صحت کی تنظیمیں اور صحت کے تحقیقاتی ادارے اور حکومتیں وائی فائی کے حوالے سے انتباہ جاری کرتی نظر آتی ہیں کہ وائی فائی کی لہریں عموماً صحت اور دماغی صحت اور خصوصاً بچوں پر منفی اثر انداز ہوتی ہیں۔یہاں تفصیل سے وائی فائی پر ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں اس کے مضرِ صحت ہونے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
(1) بے خوابی یا نیند میں خلل
آپ نے نوٹ کیا ہے کہ کبھی آپ نے دیر تک وائی فائی استعمال کیا ہو اور خود کو زیادہ دیر تک جاگتا محسوس کیا ہو یا سونے میں بے چینی پائی ہو۔ایسی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔ان شکایات کے نتیجے میں 2007میں ایک تحقیق کی گئی جس میں سیل فون استعمال کرنے کے نتیجے میں نیند پر اثرات سامنے آئے(واضح رہے سیل فون کی لہریں وائی فائی لہروں سے کم توانا ہوتی ہیں) اس تحقیق میں حصّہ لینے والوں کو اصل فون سے برق مقناطیسی سگنلز کا سامنا کرایا گیایا جعلی فون سے کوئی سگنلز نہیں دیئے گئے۔وہ افراد جنہوں نے برق مقناطیسی لہروں کا سامنا کیا تھاانھیں سونے میں زیادہ مشکلات پیش آئیںاور دماغی لہروں کی ترتیب میں تبدیلی بھی مشاہدے میں آئی۔اس سے یہ خیال کیا گیا کہ فون کے قریب سونا ، گھر میں دیر تک وائی فائی کے قریب رہنا یا سونا یا ایک ایسی رہائشی عمارت جہاں کئی وائی فائی سگنلز موجود ہوں شدید نیند کی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔کیوں کہ وائی فائی کی آلودگی کی مسلسل آتی لہریں نیند یا نیند کے اوقات کار میں مداخلت کرتی ہیں کئی لوگوں کے لیے نیند سے محرومی کا عمل زیادہ بڑی مصیبت کی شروعات ہوتی ہے جن میں اعصابی دبائو اور بے قاعدہ فشارِ خون وغیرہ کا تعلق ناکافی نیند سے بھی ہوتا ہے۔
(2) بچوں کے اذہان اور نشوو نما کو نقصانات
بچے خصوصاً وائی فائی کی لہروں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیوں کہ ان کا اعصابی نظام بڑھنے اور پروان چڑھنے کے مرحلے میں ہوتا ہے نیز ان کی کھوپڑی زیادہ پتلی اور چھوٹی ہوتی ہے۔لہٰذا شعاعیں ان کے دماغ کے زیادہ اندر سرائیت کر جاتی ہیں۔اسی طرح وائی فائی اور سیل فون سے آتی لہریں طبعی خلوی نشوونما میں خلل ڈال سکتی ہیں ۔ 2004میں جانوروں پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ وائی فائی کے سگنلز ان کے گردے کی بالیدگی میں تاخیر کا سبب بنے۔ 2009 میں آسڑیا میں کی گئی تحقیق سے اس معلومات کو مزید تقویت ملی۔لحمیات (پروٹین )کی تالیف میں خلل اتنا شدید ہوتا ہے کہ مصنّفین نے خصوصی طور پر تحریر کیا کہ ’’یہ خلیے کی خصوصیت خاص طور پر بافتوں کی پیدائش اور افزائش پر زیادہ اثر ڈالتی ہے، یعنی بچوں اور نوجوانوں میں۔نتیجے کے طور پر آبادی کا یہ حصّہ بیان کیے گئے اثرات کے لیے اوسط سے زیادہ اثر پزیر ہوگا۔‘‘ مختصراً یہ کہ بڑھتے ہوئے بچوں کی وائی فائی کے ماحول میں پرورش ان کی نشوونما کے خطرات بڑھا دے گی۔ بچوں میں وائی فائی کے دیگر منفی اثرات میں کسی بھی کام خصوصاً مطالعے میں ارتکاز کا فقدان ، قلیل المدّت یادداشت پر اثر ہونا، سردرد، تھکاوٹ، نیند میں بے ضابطگی، انہضام کا مسئلہ، بے چینی و پژمردگی وغیرہ شامل ہیں۔
(3) خلیوں کی افزائش پر اثر
ڈنمارک میں نویں جماعت کے کچھ بچوں کو اپنے سر کے نزدیک سیل فون رکھ کر سونے کے بعد مطالعے و دیگر کاموں میں ارتکاز میں مشکلات پیش آئیں تو انھوں نے ایک سبزی پر وائی فائی سے نکلنے والی ریڈیائی لہروں کے اثرات جانچنے کا ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے پودے کے ایک مجموعے کو وائی فائی کے ماحول میں رکھا جب کہ دوسرے مجموعے کو وائی فائی سے پاک ماحول میں رکھا ۔وائی فائی کے روٹرزاتنی ہی مقدار میں شعاعیں خارج کر رہے تھے جتنا ایک سیل فون کرتا ہے۔ پودے جو وائی فائی کے زیادہ نزدیک تھے وہ نشوونما ہی نہیں پا سکے۔
(4) دماغی کارکردگی کو نقصان
جیسا کہ ڈنمارک کے ہائی اسکول کے بچوں نے ارتکاز میں مشکلات محسوس کیں۔ سائنس دانوں نے دماغی کارکردگی پر 4Gٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی شعاعوں کے اثرات کو دیکھنا شروع کر دیاہے۔ایم آر آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دماغ پر ایک تحقیق جو گزشتہ برس کی گئی اس میں دیکھا گیا کہ وہ افراد جن کا فور جی شعاعوں سے سامنا ہوا ان کے دماغ کے کئی حصّوں کی سرگرمی میں کمی پائی گئی۔
ایک اور تحقیق جس میں تیس صحت مند رضاکاروں پندرہ خواتین اور پندرہ حضرات پر مشتمل ایک گروپ کا سادہ سا ذہنی یادداشت کا ٹیسٹ لیا گیا ۔ پہلے وائی فائی کی شعاعوں کا سامنا کرائے بغیر ان کا ٹیسٹ لیا گیاجس میں عمومی نتائج ظاہر ہوئے۔اس کے بعد انھیں وائرلیس کی دستیا ب جگہ سے پینتالیس منٹ کے لیے 2.4GHzوائی فائی لہروں سے سامنا کرایا گیا۔ٹیسٹ کے اس حصّے کے دوران ذہنی سرگرمیوں کی پیمائش کی گئی اور خواتین کی ذہنی سرگرمیوں اور تونائی کی سطح میں واضح تبدیلی نوٹ کی گئی۔ تاہم مردوں کا ٹیسٹ بھی زیادہ تسلی بخش نہ رہا۔
(5) پیدائشی نظام پر منفی اثرات
انسانوں اور جانوروں دونوں کے ٹیسٹ سے محققین نے دریافت کیا ہے کہ وائی فائی لہریں مادہ تولید اور ڈی این اے پر منفی اثر ڈالتی ہیں ۔
نیز جانوروں پر ایک تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ کچھ لاسلکی تعددِ امواج بیضہ کی تنصیب کو روک سکتی ہے۔ مطالعے کے دوران چوہوں کو پینتالیس دن تک روزانہ ایک گھنٹے وائی فائی کا سامنا کرایا گیاجس سے ان کے تکسیدی دبائو (Oxidative Stress) میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔وائی فائی کا سامنا کرنے کے نتیجے میں خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ڈی این اے کی ساخت پر اثر بھی دیکھا گیا۔
(6)قلب کے دبائو میں شدت
تھری جی ، فور جی یا ایل ٹی ای سیل فون یا وائرلیس کے احاطے میں رہتے ہوئے اگر آپ اپنا دل تیزی سے دھڑکتا محسوس کرتے ہیں تو یہ آپ کے دماغی ہیجان کا سبب نہیں ہو سکتاہے۔69قلبی امراض کے مریضوں پر مشتمل ایک مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کئی مریضوں کو برق مقناطیسی تعددِ امواج کا سامنا رہتا ہے ۔ جس کا طبعی نتیجہ دل کی دھڑکن کی رفتار میں اضافہ ہے بالکل اسی طرح جس طرح اعصابی دبائو میں مبتلا شخص کے دل دھڑکنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔
(7)کینسر پیدا کرنے کا سبب
اس موضوع پر بہت زیادہ تنازعہ پایا جاتا ہے مگر ایسے کئی مشاہدات سامنے آچکے ہیں جن میں جانوروں کے نمونے ظاہر کر چکے ہیں کہ برق مقناطیسی شعاعوں سے سامنا رسولی بننے کے خطرے میں اضافہ کرتا ہے۔اگرچہ اس حوالے سے جتنی زیادہ رپورٹیں عام ہیں اتنا ہی زیادہ انسانی مطالعہ محدود ہے۔
(8) برق مقناطیسی زودِ حسّاسیت
(Electromagnetic Hypersensitivity)
ہم انسان صرف گوشت پوست کے انسان نہیں ہم ایک نہایت پیچیدہ برق مقناطیسی نظام بھی ہیں۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم بیرونی برق مقناطیسی لہروں سے تعامل کرتے ہیں۔ تاہم گھر کی اور آفس کی ہر برقی ڈیوائسز کو بند کرنے کی کوشش میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم ان ڈیوائسز کے کتنے محتاج ہو گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان برق مقناطیسی شعاعوں کا انسانی صحت پر کتنا نقصان دہ اثر پڑتا ہے اسے بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔
برق مقناطیسی تعددِ امواج موبائل فون ، مائیکروویو اور دیگر لاسلکی پروٹوکول جیسے بلیوٹوتھ، وائی فائی اور وائی میکس سے نکلی لہروں میں ہم نہائے رہتے ہیں۔ سیل فون بیس اسٹیشن کے نزدیک ہونے سے بھی برق مقناطیسی زودِ حسّاسیت نقصان دے سکتی ہے اور ہماری لاعلمی کے باوجود شہروں میں ایسا ہونا بہت ممکن ہوتا ہے۔
برق مقناطیسی زودِ حسّاسیت ان افراد کو لاحق ہوتی ہے جنھیں کم دورانیے یا کم تعداد میں شعاعوں کا سامنا کرنے سے بھی مختلف عارضے لاحق ہو جاتے ہیں۔برق مقناطیسی زودِ حسّاسیت کے کچھ اثرات مندرجہ ذیل ہیں۔
٭چہرے پر گرم اور جلتی ہوئی سنسنی ، کسی حد تک دھوپ کی تپش جیسے اثرات ہونا۔
٭چہرے پر یا جسم کے دیگر حصوں پرسنسناتا یا چبھتا ہوا احساس۔
٭رطوبت کی جھلّی کا(جیسے حلق اور آنکھوں کے پیچھے) بے حد خشک ہو جانا۔
٭رطوبت کی جھلّی (جیسے ناک ،گلا، کان اور سانس کی نالی) پر بغیر کسی انفیکشن کے ورم آجانا۔
٭کسی کام میں ارتکاز کا مسئلہ ، یادداشت کا کھونا اور چکر آنا۔
٭سر درد اور متلی ہونا۔
٭دانتوں اور جبڑوں میں درد ۔
٭پٹھوں اور جوڑوں میں درد۔
٭قلب کا کانپنا اور زور زور سے دھڑکنا۔
واضح رہے یہ برق مقناطیسی اثرات ہر عام انسان پر ہو سکتے ہیں۔ تاہم زودِ حسّاسیت کے شکار افراد زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ برق مقناطیسی زودِ حسّاسیت سے بچنے کا فی الحال کوئی مکمل علاج نہیں۔سوائے یہ کہ آپ ان لاسلکی لہروں سے جتنا زیادہ بچیں اتنا بہتر ہے۔تاہم اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپ ان لہروں سے بچ نہیں سکتے یہ خصوصاً شہروں میں ہر جگہ موجود ہیں۔
وائی فائی کے حوالے سے دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں
دنیا بھر میں بیشتر اقوام شعاعوں کا سامنا کرنے کا پابند بنانے کے لیے حفاظتی معیارات مقررکرچکی ہیں ان معیارات کی بنیاد کم دورانیے میں جسم کی بافتوں کے جلنے یا گرم ہونے پر مقرر ہے۔
آخری بار ان رہنما ضوابط کا 90کی دہائی کے آخر میں (یعنی وائی فائی کے عام ہونے سے قبل) جائزہ لیا گیا تھا ۔ لہٰذا یہ معیارات موجودہ دور میں ناکافی ہیں کیوںکہ یہ صحت کے ان غیر حرارتی اثرات کو بیان نہیں کرتے جن کے متعلق آج دنیا بھر کے بے شمار سائنس دان متفکر ہیں۔ متعدد صحت اور ماحولیات کی عالمی ، حکومتی اور غیر حکومتی تنظیموں کی جانب سے حفاظتی معیارات کا جائزہ لینے کی ضرورت پر اصرار کے باوجود اس وقت وائرلیس ٹیکنالوجی کے تیار کنندگان اور سہولت فراہم کنندگان کو صرف حکومتی معیارات پورے کرنے کی ضرورت ہوتی (جو ناکافی ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے)۔
اس حوالے سے غالباً سب سے مشہور سن2000 میں شائع ہونے والی اسٹیورٹ رپورٹ ہے جو یوکے (UK) کی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایک کمیٹی نے مائیکرو ویو شعاعوں کے اثرات جاننے کے لیے شائع کی تھی ۔کمیٹی کے سربراہ سر ولیم اسٹیورٹ (یوکے حکومت کے سابق اعلیٰ سائنسی مشیر اور ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کے سربراہ )تھے۔ اسٹیورٹ رپورٹ میں درج تھا کہ حکومت کے قائم کردہ حفاظتی معیار سے کم کی بھی شعاعوں کا سامنا کرنے سے حیاتیاتی اثرات ہوسکتے ہیں۔ اور یہ کہ ان ٹیکنالوجی کے لیے تنبیہی طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
2007میں اعلیٰ سطح کے سائنس دان ، محققین اور صحتِ عامہ کی پالیسی کے ماہرین کے ایک گروپ نے Bioinitiativeکے نام سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں دو ہزار سے زائد تحقیقات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ان کی حتمی رپورٹ نے موجودہ مقررہ معیار کی حد سے متعلق شدید تحفظات کو اُبھارا اور وائرلیس ٹیکنالوجی کا سامنا کرنے سے برین ٹیومر اور دیگر صحت کے خطرات کے امکانات کو درج کیا۔
اس رپورٹ کے بعد یورپ کی اعلیٰ ماحولیاتی تنظیموں اور ایجنسیوں نے وائی فائی موبائل فون اور ان کے کھمبوں وغیرہ کی شعاعوں کے سامنا کرنے کے معیارات کی حد میں مزید کمی کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔انھوں نے مشورہ دیا کہ اس میں تاخیر ازبستس( صحت کے لیے نقصان دہ ایک ریشے دار کانیAsbestos)، سگریٹ نوشی اور پٹرول میں سیسے کے ذریعے پیدا ہونے والے صحت کے بحران کی طرح نقصان کو جنم دی سکتی ہے۔
جرمن حکومت اپنے شہریوں کے لیے انتباہ جاری کر چکی ہے کہ وہ گھر پر یا کام کی جگہ پر وائی فائی کے استعمال سے اجتناب کریں اور اس کے بجائے کیبل کنکشن استعمال کریں۔
انگلینڈ اور فرانس کے کئی اسکولوں نے اساتذہ اور والدین کی شکایات پر وائی فائی سسٹم نکال دیے۔2007کے آخر میں پیرس میں فرانسیسی کتب خانوں نے عملے کی جانب سے صحت کی شکایات کے بعد وائی فائی سسٹم نکال دیے۔
2005 میں آسٹریا کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے وائی فائی کے بجائے کیبل نیٹ ورک استعمال کرنے کا مشورہ شائع کیا۔
آسٹریا سالزبرگ ، جرمنی فرینکفرٹ کے مقامی محکمہء تعلیم اور اور جرمن اساتذہ کی یونین اسکولوں میں وائی فائی کے استعمال کی مخالفت میں مشورہ دے چکے ہیں یا ان کا استعمال بند کر چکے ہیں۔
2007کے وسط میں یورپی ماحولیات کی ایک ایجنسی نے ایک بیان جاری کیا جس میں تنبیہ کی گئی کہ جب تک سائنس کے ذریعے وائی فائی کے صحت پر اور دیگر حیات پر ہونے والے اثرات کی مزید معلومات نہیں ملتی تب تک وائی فائی و دیگر وائرلیس ذرائع مواصلات کے استعمال میں محتاط طریقہ اختیار کریں ۔
سویڈن میں برق مقناطیسی حساسیت کو معذوری سمجھا جاتا ہے اور اگر آپ کو ضرورت ہو تو حکومت کی جانب سے آپ کے گھر میں اینٹی ریڈی ایشن پینٹ کیا جاتا ہے۔نیز اسکول میں اگر ایک شخص بھی وائی فائی سے برق مقناطیسی لہروں کے منفی اثرات کی شکایت کرے تو وائی فائی کو بند کردیا جاتا ہے اور تفتیش کی جاتی ہے۔
سویڈن میں کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ نے 2011میں ایک انتباہ جاری کیاجس میں درج تھا کہ سویڈن حمل زدہ خواتین وائرلیس ڈیوائسز کے استعمال سے اجتناب کریں اور دیگر استعمال کرنے والوں سے دُور رہیں جب وہ وائی فائی استعمال کر رہے ہوں۔ نیز امریکا اور کینیڈا میں ریڈیو فریکوئنسی اور مائیکرو ویو شعاعوں کے سامنا کرنے کے موجودہ معیارات مکمل طور پر درست نہیں اور حمل میں موجود بچوں کے لیے حفاظتی معیارات نظر انداز کیے جاتے ہیں۔
وائی فائی سے بچاؤ
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ اپنا وائی فائی سسٹم بند کر دیں تب بھی آپ پڑوس سے آنے والی وائی فائی لہریں وصول کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ وائی فائی سے بھاگ نہیں سکتے کیوں کہ یہ اب معاشرے کا حصّہ ہے۔ یہ خصوصاً شہروں میں ہر جگہ موجود ہے۔ لہٰذا اس سے مکمل طور پر بچائو کم از کم شہروں میں رہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ۔ تاہم اس کا سامنا کرنے میں کمی ضرور لائی جاسکتی ہے۔
(1) وائی فائی کی شدت اور فاصلہ
کچھ مضامین وائی فائی کو غیر ضروری حد تک ایسا ثابت کرتے ہیں جیسے مائیکرو ویو اوون کام کرتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وائی فائی کے سگنلز کی شدت مائیکرو ویو اوون سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔مزید یہ کہ اوون ایک حدفی ڈیوائس ہے جو ہائی وولٹیج پر اور زیادہ شدت کے ساتھ مختصر جگہ اور مختصر فاصلے پر کام کرتی ہیں۔جب کہ وائی فائی کم وولٹیج کے ساتھ وسیع علاقے میں ہر سمت نشر ہوتی ہیں اور زیادہ فاصلے پر کام کرتی ہیں۔
چوں کہ ریڈیو لہریں دیگر برق مقناطیسی لہروں کی طرح الٹی مربع نسبت کے قانون (Inverse Square Law)پر عمل کرتی ہیںلہٰذا آپ جتنا وائی فائی ریڈیائی لہریں خارج کرنے والی اور موصول کرنے والی ڈیوائسز (وائی فائی روٹرز، ریپیٹرز، بوسٹرز، دستی کمپیوٹر، سیل فون وغیرہ) سے فاصلہ رکھیں اتنا ہی آپ ان اثرات کی شدت سے محفوظ رہ سکیں گے۔ہر دُگنے فاصلے کے بعد آپ لہروں کی توانائی کا ایک چوتھائی حصّہ وصول کرتے ہیں۔ایک معیاری زیرِ عمل فاصلے پر وائی فائی کی شدت عموماً اتنی کم ہو جاتی ہے کہ اس پر انسانی صحت پر ہونے والے اثرات بہت حد تک کم ہو جاتے ہیں۔
آپ اپنا اور اپنی صحت کا تجزیہ کریں۔اور نوٹ کریں کہ آپ برق مقناطیسی لہروں کے لیے کتنے زودِ حس ہیںاور وائی فائی کے وہ تمام اثرات کتنی شدت سے آپ محسوس کرتے ہیں جو اوپر ذکر کیے گئے ہیں۔پھر نوٹ کریں کہ آفس یا گھر میںجہاں آپ کام کرتے ہیںوہاں سے وائی فائی روٹر کتنی دور ہے اور یقینی بنائیں کہ جس ٹیبل پر آپ کام کر رہے ہوں اس پر وائی فائی روٹر موجود نہ ہو۔وائی فائی ٹاورز کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے چناچہ ان سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کریں اور اگر آپ زیادہ برق مقناطیسی زودِ حس ہیں تو براہِ راست ان کے نیچے بیٹھنے سے اجتناب کریں۔
(2)وائی فائی کے استعمال کا دورانیہ مخصوص اور محدود کریں
چاہے آپ کام پر ہوں یا گھر پروائی فائی کے استعمال کا دورانیہ مخصوص اور محدود کریں۔ خصوصاً کمپیوٹر نیٹ ورکنگ، کمیونی کیشن ، ای بینکنگ وغیرہ سے تعلق رکھنے والے اور وہ افراد جن کے لیے روزانہ طویل دورانیے تک وائی فائی کا استعمال ضروری ہوتا ہے وہ کم از کم روٹرز اور ریپیٹرز سے فاصلے کا خیال رکھیں ۔ وائی فائی یو ایس بی و دیگر وائی فائی پورٹیبل ڈیوائسز (مثلاً وائی فائی سگنلز بوسٹرز) وغیرہ کے استعمال میں احتیاط کریں ۔ مثلاً وائی فائی یو ایس بی ڈیوائسز کو براہِ راست لیپ ٹاپ میں لگانے کے بجائے برقی سوئچ میں لگا کر استعمال کریں یا ایک لمبی یو ایس بی کورڈ استعمال کریں۔لیپ ٹاپ کو گود میں رکھ کر استعمال نہ کریں۔گھر میں رات کو روٹر آف کر دیں۔اگر آپ کے بچے وائی فائی کے ذریعے سو شل نیٹ ورکنگ و آن لائن گیمز کھیلتے ہیں تو ان کے استعمال کے لیے اوقات مخصوص کریں اور ان کے دورانیے کو محدود کریں ۔
(3) عمارتی ڈھانچے کی دھاتی پرت
کچھ معما ر عمارت میں دھاتی (مثلاً) ایلومینیم کی چادر کی غیر موصل کاری (انسولیشن) کر دیتے ہیں۔سرد علاقوں میں یہ طریقہ عمارت کو پانی سے بچانے عمارت کی اندرونی حرارت کو باہر زائل ہونے سے بچانے اور بیرونی حرارت کو اندر داخل ہونے میں مدد کرتا ہے۔ تاہم یہ ایک (مائیکل) فیراڈے کیج کی طرح کام کرتا ہے۔ فیراڈے کیج وہ شے ہے جس سے آر پاربرق مقناطیسی شعاعیں نہیں گزر سکتیں۔وائی فائی شعاعیں چوں کہ مائیکروویو شعاعوں کے طیفی حصّے میں ہوتی ہیں لہٰذا ایسے گھر میں وائی فائی اگر کیبل موڈیم کی صورت میں موجود ہے تو وہاں وائی فائی شعاعوں کی شدت بہت زیادہ ہوگی کیوں کہ ان لہروں کو عمارت کے پار گزرنے کے لیے راستہ کم ہوگا۔تاہم کورڈ لیس وائی فائی روٹر کو ایسے گھر میں باہر سے سگنلز نہ ملنے کے امکانات بھی اسی حد تک زیادہ ہوتے ہیں۔ چناں چہ ایسے گھر جہاں دروازے اور چھتیں دھات (مثلاً ٹین یا ایلومینیم ) کی ہوں تو انھیں روٹر لگاتے وقت سگنل اور صحت دونوں اصولوں کو مدّ نظر رکھنا چاہیے۔ بعض لوگ وائی فائی کے سگنلز کو فوکس کرنے کے لیے ایلومینیم کی چادر کا سہارا لیتے ہیں انھیں بھی مذکورہ احتیاط پر غور کرنا چاہیے۔
(4)وائی فائی کے ساتھ فون استعمال کرنے میں احتیاط کریں
فون میں وائی فائی آن کرنے کے بعد یہ ضرور یاد رکھیں کہ آپ کا فون اب فون جمع وائی فائی دونوں سگنلز وصول کر رہا ہے۔کئی افراد اسکائپ، وائبر ، وغیرہ استعمال کرتے وقت براہِ راست فون کو کان سے لگاتے ہیں۔ وائی فائی کی تعددِ امواج فون سگنلز سے زیادہ لیکن تھری جی و فور جی کے قریباً مساوی ہوتی ہے۔اس لیے وہ افراد جو وائی فائی کے ذریعے اسکائپ یا وائبر وغیرہ استعمال کرتے ہوئے فون کو براہِ راست کان سے لگاتے ہیں ان میں دماغی امراض کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
لفظِ آخر کے طور پر یہاں یہ پیش کیا جانا ضروری ہے کہ اس مضمون کا مقصد قارئین میں وائی فائی کے درست استعمال اور صحت کے حوالے سے شعور کو اُجاگر کرنا ہے۔چناچہ سب سے بہترین حکمتِ عملی ٹیکنالوجی کو ترک کردینا نہیں بلکہ اس کے اثرات کی مکمل اور مصدقہ معلومات کے حاصل ہونے تک اس کا محتاط استعمال ہے۔ابلاغ کے ذرائع استعمال کرنا ہر فرد کا حق ہے تاہم ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ روز مرّہ میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر باخبر رہے تاکہ وہ اپنی اور اپنے حلقے کے افراد کی صحت اور ماحول کے لیے ایک مثبت اور مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اب آپ پڑوس اور اطراف سے مفت وائی فائی کے بہت سارے سگنلز وصول کرنے لگیں تو اس بات کو یاد رکھیں دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں آپ کہیں نا کہیں اس کی قیمت ادا کررہے ہوتے ہیں۔
اگر آپ اپنی صحت کے معاملے میں بہت حساس ہیں تو ہو سکتا ہے آیندہ آپ کسی گھر کے جائیں تو وائی فائی کا پاس ورڈ پوچھنے کی بجائے سب سے پہلے اسے آف کرنے کی درخواست کریں گے۔
Comments are closed.