کہیں انجانے میں آپ سائبر مجرم تو نہیں بن رہے؟
انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے تقریباً ہر شخص نے کوئی نہ کوئی سائبر کرائم ضرور کیا ہے، قانونی نہیں تو اخلاقی جرم تو کیا ہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو تو اس کا اندازا تک نہیں ہوتا۔ وہ کہیں سے بھی کوئی تصویر، مضمون یا ویڈیو کاپی کرتے وقت ذرا بھی نہیں جھجکتے۔ انٹرنیٹ پر ایسے تمام کام ہیں سائبر کرائم کے ذُمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان میں بھی سائبر کرائمز کے حوالے سے قانون موجود ہے جس کی تفصیل آپ یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں:
سینیٹ کمیٹی نے متنازع سائبر کرائم بل منظور کرلیا
کاپی پیسٹ یا مواد کی چوری
ہر تخلیقی چیز بنانے والے کے پاس ایک خاص حق ہوتا ہے جو اسے آپ کے مواد کو غیر قانونی طریقے سے کاپی کئے جانے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسے کاپی رائٹ کہتے ہیں۔
آپ کے مضامین، کہانی، شاعری، تصویر، موسیقی کی دُھن، سافٹ ویئر، ویڈیو، کارٹون، کتاب، ای بک، ویب سائٹ وغیرہ پر آپ کو یہ خاص حق حاصل ہے کہ کوئی بھی شخص آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی تخلیق کی کاپی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے دوسروں کو دے سکتا ہے۔ ایسا کرنا کاپی رائٹ قانون کی خلاف ورزی ہے اور آپ اس کے خلاف عدالت جا سکتے ہیں۔
کاپی رائٹس لینا ایک قانونی عمل ہے، لیکن اگر آپ ایسا نہیں بھی کرتے تو بھی آپ اپنی تخلیق کے مالک ہیں اور کوئی اسے چوری نہیں کر سکتا۔
اسی طرح اگر آپ کسی اور کی تصویر کو اس کی تحریری منظوری کے بغیر اپنی فیس بک پروفائل پر پوسٹ کرتے ہیں تو یہ سائبر کرائم ہے۔ گوگل امیج یا دوسری امیج سرچنگ و ہوسٹنگ ویب سائٹس سے پسند کی کوئی تصویر لے کر اسے اپنے بلاگ، سوشل نیٹ ورکنگ اکاؤنٹ، ای میل، ویب سائٹ یا میگزین میں استعمال کرنا بھی اسی کٹیگری میں آتا ہے۔
گوگل ایک تلاش کا انجن ہے، وہ مفت ڈاؤن لوڈ ویب سائٹ نہیں ہے۔ اسی لئے وہ کسی بھی تصویر کے ساتھ اس ویب صفحے کو بھی دِکھاتا ہے، جہاں سے اسے ڈھونڈا گیا ہے۔ ایسا کر کے وہ تصویر چُرائے جانے کے معاملے میں کسی بھی طرح کی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتا ہے۔
ایسی صورت میں کیا کریں؟
اگر آپ کو گوگل امیج سرچ پر موجود کوئی تصویر استعمال کرنی ہے تو اس ویب صفحے کے آپریٹر سے اجازت لینی چاہئے، اگر کوئی جواب موصول نہ ہو تو کم از کم تصویر کے ساتھ حوالہ ضرور لکھیں۔
اگر کوئی شخص اپنی تخلیق کو لے کر زیادہ ہی سنجیدہ ہو تو یہ چھوٹی سی چوری آپ کو بھاری پڑ سکتی ہے۔ جس گوگل کے ذریعے آپ نے وہ مضمون، تصویر یا ویڈیو ڈھونڈا ہے، اسی کے ذریعہ آپ کی چوری بھی پکڑی جا سکتی ہے۔
’’بشکریہ گوگل‘‘ کافی نہیں
کچھ بلاگز پر بڑی دلچسپ باتیں نظر آتی ہیں۔ بلاگرز نے گوگل امیجز سے تصویر کو استعمال کیا اور بطور احتیاط نیچے ’’بشکریہ گوگل‘‘ لکھ دیا۔
گوگل پر دِکھائے جانے والے تلاش نتائج، تصاویر وغیرہ پر گوگل کا کوئی مالکانہ حق نہیں ہے۔ وہ تو محض ریفرنس کے طور پر دی گئی ہیں، جس سے آپ صحیح ٹھکانے تک پہنچ سکیں۔ شکریہ ادا ہی کرنا ہے تو اس ویب سائٹ کو کریں جہاں سے گوگل نے اسے ڈھونڈا ہے۔
فحش مواد دیکھنا بھی سائبر کرائم ہے
اگر آپ جانے یا انجانے میں اپنے انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے کسی بھی طرح کا فحش مواد (تصاویر، ویڈیو، مضامین وغیرہ) دیکھتے ہیں تو وہ بھی سائبر کرائم ہے۔
آپ نے ایسے کسی مواد کو اپنے کسی دوست کو فارورڈ کر دیا تو آپ ایک اور سائبر کرائم کر چکے ہیں۔ یاد رکھیں فحش مواد دیکھنا، انٹرنیٹ سے بھیجنا اور محفوظ کرنا سائبر کرائم ہے اس لیے انہیں نہ خود دیکھیں، نہ کسی کو فارورڈ کریں۔
لوگو (Logo) کی چوری
انٹرنیٹ پر لوگو یعنی کسی کے علامتی نشان، ٹریڈ مارک وغیرہ کی چوری بھی عام ہے۔ کوئی نیا کام شروع کرنا ہے یا نئی ویب سائٹ بنانی ہے تو لوگو کے لئے انٹرنیٹ سرچ سے بہتر ذریعہ کیا ہوگا؟
اچھا سا لوگو دکھائی دیا اور آپ نے اسے کاپی کر استعمال کر لیا یا کسی ڈیزائنر کی خدمات لیں جس نے فوری انٹرنیٹ سے کسی کمپنی کا اچھا سا لوگو استعمال کر خوبصورت سا وزٹنگ کارڈ، برو شر اور لیٹرہیڈ تیار کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے آپ نہ صرف کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کر چکے ہیں بلکہ آن لائن ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی کے معاملے میں بھی آپ کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔ کبھی بھی کسی کے لوگو یا آئی کن کا استعمال اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے نہ کریں۔
وائی فائی کا غلط استعمال
جولائی 2008 میں احمد آباد بم دھماکوں کے بعد ان کی ذمہ داری لیتے ہوئے دہشت گردوں نے جو ای میل بھیجی تھی، وہ آپ کے ہمارے جیسے ہی کسی عام انٹرنیٹ صارف کے وائی فائی کنکشن کا استعمال کرتے ہوئے بھیجی گئی تھی۔ تفتیشی ایجنسیوں نے پتا لگایا کہ یہ ای میل ممبئی کے ایک فلیٹ میں لگے وائرلیس انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے آئی تھی۔ ظاہر ہے، انہوں نے یہی نتیجہ نکالا کہ جس گھر سے ای میل بھیجی گئی، وہ کسی نہ کسی طور پر حملہ آوروں سے منسلک ہیں، لیکن اس فلیٹ میں رہتا تھا ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والا امریکی شہری کین ہے وڈ (Ken Haywood) ۔ اب اسے سمجھ آیا کہ انٹرنیٹ کنکشن لگانے والے انجینئر نے کیوں کہا تھا کہ اسے اپنے وائی فائی نیٹ ورک کے پاس ورڈ کو جلدی ہی بدل لینا چاہئے۔ دراصل،ہےوڈ کے وائی فائی کنکشن میں کوئی سکیورٹی سیٹنگز نہیں کی گئی تھیںاور آس پاس سے گزر تا کوئی بھی شخص ہےوڈ کے کنکشن کا استعمال کر سکتا تھا۔ دہشت گردوں نے یہی کیا اور ہےوڈ ایک دہشت گردی کے معاملے میں گرفتار ہوتے ہوتے بچا۔
اگر کوئی مجرم آپ کے انٹرنیٹ کنکشن کا استعمال کرتے ہوئے سائبر کرائم کرتا ہے تو پولیس اسے بھلے ہی نہ ڈھونڈ پائے، آپ تک ضرور پہنچ جائے گی اور نتائج بھگتنے ہوں گے آپ کو۔
وائرس، اسپائی ویئر
اگر آپ کے کمپیوٹر پر کسی وائرس یا اسپائی ویئرنے قبضہ جما لیا ہے اور وہ زومبی میں تبدیل ہو گیا ہے تو سمجھئے، آپ کمپیوٹر اور ڈیٹا کے عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم میں بھی پھنس سکتے ہیں۔ ممکن ہے، آپ کسی بالواسطہ سائبر کرائم میں حصہ دار بن رہے ہوں۔
کچھ وائرس اور اسپائی ویئرنہ صرف آپ کے کمپیوٹر کا ڈیٹا اور ذاتی معلومات چُرا کر آپ کے آپریٹرز تک بھیجتے ہیں بلکہ آپ سے رابطے میں موجود دوسرے لوگوں تک بھی اپنی کاپیاں پہنچا دیتے ہیں۔ کبھی انٹرنیٹ کے ذریعے، کبھی ای میل کے ذریعے تو کبھی لوکل نیٹ ورک کے ذریعے۔ جن لوگوں کے کمپیوٹر میں آپ کے ذریعے وائرس یا اسپائی ویئرپہنچا اور کوئی بڑا نقصان ہو گیا، ان کی نظر میں مجرم کون ہوگا؟ ظاہر ہے آپ۔ اس طرح کے معاملات میں آپ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔
کمپیوٹر میں اچھا اینٹی وائرس، اسپائی ویئر اور فائر وال ضرور انسٹال رکھیں۔ یہ صرف آپ کی سائبر سکیوریٹی کے لحاظ سے ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اس لیے بھی ہے کہ کہیں آپ انجانے میں کوئی سائبر جرم نہ کر بیٹھیں۔
کسی کا اکاونٹ کھولنا
کچھ لوگ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ای میل اکاؤنٹ، فیس بک وغیرہ کے پاس ورڈ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی کبھی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، آپ محض موج مستی یا مذاق کے لئے ایسا کر رہے ہوں لیکن اگر آپ کسی کا پاس ورڈ دوبارہ حاصل کرنے کے بعد اس کے اکاؤنٹ میں لاگ ان کرتے ہیں تو آپ سائبر کرائم کر رہے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نے آپ پر بھروسا کرکے آپ کو اپنا پاس ورڈ بتایا ہو۔ یہ اکاؤنٹ ای میل، سوشل نیٹ ورکنگ، بلاگ، ویب سائٹ، آن لائن اسٹوریج سورس، ای کامرس سائٹ، انٹرنیٹ بینکنگ جیسا ہو سکتا ہے۔
کسی کی پرائیویسی میں نقب لگانے پر آپ کو ڈیٹا پروٹیکشن قانون کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون کے تحت مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
کسی کے پاس ورڈ چُراکر اس کا اکاونٹ کھولنے کی کوشش نہ کریں۔ ساتھ ہی اگر کوئی ساتھی کہے کہ میرا ای میل کھول کر دیکھ لینا، یہ میرا پاس ورڈ ہے، تو اس سے معافی مانگ لینے میں ہی بھلائی ہے۔
سافٹ ویئر پائریسی
ہمارے ملک کے زیادہ تر کمپیوٹر صارفین کسی نہ کسی سافٹ ویئر کا پائریٹیڈ ورژن استعمال کر رہے ہیں۔ چاہے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم ہو، آفس سافٹ ویئر سوٹ ہوں یا پھر گرافکس۔ اب سافٹ کے اندر ایڈوانس قسم کے پائریسی پروٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم آنے لگے ہیں اور ہو سکتا ہے آپ کے بارے میں بھی کمپنیوں کو معلومات ہو۔ اس طرح سافٹ کا استعمال کرنا سائبر کرائم کے تحت آتا ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ پروگرام کو خرید کر استعمال کریں یا پھر اس کا کوئی مفت متبادل تلاش کریں۔
جانیں مفت اور اوپن سورس پروگرامز کیا ہوتے ہیں
گوگل کلک فراڈ
انٹرنیٹ پر اشتہارات کے بدلے ادائیگی کا انتظام تھوڑا مختلف ہے۔ یہ اشتہارات کو کلک کئے جانے کی تعداد پر مبنی ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ خود ہی اپنے بلاگز پر لگے اشتہارات پر کلک کرتے رہتے ہیں یا پھر کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔ انہیں پتا نہیں کہ انٹرنیٹ پر ایسے فرضی کلکس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس لیے اگر آپ گوگل ایڈسینس استعمال کرتے ہیں تو اس طرح کے جعلی کلکس سے بچیں۔ گوگل کا نظام بہت ہی چالاک ہے، وہ مکمل نگرانی کرتا ہے کہ کب اور کس چیز پر کلک کیا گیا، کلک کے نتیجے میں کھلنے والے صفحے پر صارف نے کیا سرگرمی انجام دی وغیرہ۔
اس طرح کے کلک سے بچیں۔ یہ بڑا اقتصادی جرم ہے اور پتا لگنے پر آپ کا اکاؤنٹ تو بند ہو ہی سکتا ہے، بھاری بھرکم جرمانہ یا دوسری سزا بھی مل سکتی ہے۔
بینڈوِڈتھ کی چوری
کچھ لوگ اپنی ویب سائٹ پر دوسری جگہوں سے لی گئی بھاری بھرکم گرافک فائلوں (کچھ MB کی تصویر یا ویڈیو وغیرہ) شامل کرنے کے لئے شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں۔
وہ فائلوں کو اپنی ویب سائٹ پر براہِ راست نہیں ڈالتے بلکہ اصل ویب سائٹ سے ہی انہیں لنک کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ویڈیو یا تصویر لگتی تو آپ کی ویب سائٹ پر ہے لیکن اصل میں وہ اپنی ویب سائٹ پر ہی ہوسٹ ہوتی ہے، آپ کے ویب سرور پر نہیں ہے۔
یہاں آپ کو دو طرح کے سائبر کرائم کر رہے ہیں۔ پہلا کاپی رائٹ سے متعلق اور دوسرا بینڈوڈتھ کی چوری۔
بینڈوڈتھ کی چوری کو ایسے سمجھ سکتے ہیںکہ ہر ویب سائٹ کو ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کا ایک خاص کوٹہ ملا ہوتا ہے اور اس کی حد سے باہر ہو جانے پر اس آپریٹر کو الگ سے پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ جب آپ کسی اور کی ویب سائٹ پر موجود بھاری بھرکم ویڈیو کو لنک کر کے اپنی ویب سائٹ پر لگاتے ہیں تو آپ کی ویب سائٹ پر آنے والے ہر وزیٹر کے لئے وہ ویڈیو اصل سائٹ سے ڈاؤن لوڈ ہوتی ہے۔ ڈاؤن لوڈنگ کے اس عمل میں اس کی بینڈوڈتھ خرچ ہوتی ہے جبکہ آپ اپنی بینڈوڈتھ بچا لیتے ہیں۔ اس طرح بینڈوڈتھ کسی کی ضائع ہوتی ہے اور ٹریفک کسی کو ملتا ہے۔ یہ کسی شخص کی جیب کاٹنے جیسا عمل ہے اس لیے ہمیشہ اپنی بینڈوڈتھ ہی خرچ کریں، دوسروں کی نہیں۔
کچھ اور سائبر کرائمز
کسی مشہور برانڈ، کمپنی، تنظیم، انسان وغیرہ کے نام سے منسلک ڈومین ناموں غیر مجاز طور پر اپنے نام سے بک کروا لینا۔
اپنے بلاگ، ویب سائٹ، سوشل نیٹ ورک یا انٹرنیٹ پر کسی کے بارے میں بدسلوکی یا فحش تبصرہ کرنا۔
کسی کلائنٹ کی طرف سے مہیا کیے جانے والے خفیہ کاروباری ڈیٹا کی کاپی بنا کر اپنے پاس رکھنا۔
بہت سی ویب ڈیویلپمنٹ کمپنیاں اپنے گاہکوں کے لئے ڈومین نیم بُک کراتے، ویب ہوسٹنگ اسپیس لیتے اور انٹرنیٹ سروس مہیا کراتے وقت ان کا سب سے خاص یوزر نیم اور پاس ورڈ اپنے قبضے میں رکھ لیتی ہیں اور پھر اسی کے دم پر گاہکوں کو تنگ کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک سائبر کرائم ہے۔
کسی ویب سائٹ، بلاگ، ای بک وغیرہ کی بنا منظوری ہو بہ ہو نقل کر لینایا کسی کی ٹیمپلیٹ کو غیر مجاز طور پر استعمال کر لینا۔
سائبر کرائم سے بچنے کا حل
زیادہ تر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کسی دوسرے کی تخلیق کو بغیر اجازت لیے استعمال کرنے کے جرم میں مبتلا ہے۔ اس مسئلے کا حل موجود ہے، لیکن اس کے لیے تھوڑی سی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ مثلاً آپ کسی سافٹ ویئر کو خرید نہیں سکتے تو اس کا متبادل مفت پروگرام تلاش کرنا ہوگا، اسے آزما کر دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ واقعی آپ کی ضروریات پر پورا اُترتا ہے یا نہیں۔
اگر آپ آن لائن کوئی کاپی شدہ چیز پوسٹ کرتے ہیں تو گوگل کبھی بھی آپ کی تحریر کو سرچ رزلٹس میں پہلے نمبر پر نہیں دِکھائے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا ماخذ کہاں ہے اور وہ اصل تحریر ہمیشہ سب سے اوپر رہے گی۔
کبھی بھی اس خوش خیالی میں مت رہیں کہ آپ کسی کی چیز کاپی کر رہے ہیں تو کسی کو خبر نہیں۔ اکثر لوگ خود بھی اپنے مواد کے بارے میں تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کہیں انھیں کوئی دوسرا تو استعمال نہیں کر رہا۔ اس حوالے سے آپ کمپیوٹنگ کی ہی مثال لے سکتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تقریباً ہر تحریر دوسرے لوگ بھی اپنی ویب سائٹس پر شائع کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض بڑے نامور اخبارات بھی جب ہماری تحریریں شائع کرتے ہیں تو وہ ہماری نظر سے ضرور گزرتی ہیں۔ اسی طرح تقریباً تمام وہ لوگ جو اصل مواد انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتے ہیں، یا سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیز جن کے کریک سافٹ ویئر آپ استعمال کر رہے ہوتے ہیں وہ اس حوالے سے بالکل بے خبر نہیں ہوتے۔
اسی طرح اگر آپ کو موسیقی، ویڈیوز یا تصاویر وغیرہ کی ضرورت ہے تو اس صورت میں وہ ویب سائٹس تلاش کریں جو یہ مواد کسی قسم کے کاپی رائٹس کے بغیر مفت دیتی ہوں۔ ایسی کئی ویب سائٹس انٹرنیٹ پر موجود ہیں، مثلاً اگر آپ صرف تصاویر کی بات کریں تو اس کے لیے Pixabay ویب سائٹ موجود ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ گوگل امیجز کی طرح استعمال کر سکتے ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ اس کے نتائج میں آنے والی تمام تصاویر بالکل مفت دستیاب ہیں، انھیں آپ جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔
کاپی رائٹس سے آزاد تصاویر و وڈیوز مفت ڈاؤن لوڈ کریں
اگر آپ گوگل سے ہی تصاویر تلاش کرنا چاہتے ہیں تو یہاں سے بھی ایسی مفت تصاویر تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے گوگل امیجز کے صفحے پر موجود Tools میں سے Usage rights کے ڈراپ ڈاؤن مینو میں سے Labeled for reuse منتخب کر لیں۔ یا پھر اگر آپ تصاویر میں تدوین کر کے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو Labeled for reuse with modification کو منتخب کریں تو آپ کی ضرورت کے تحت دستیاب تصاویر ہی دکھائی جائیں گی۔
Comments are closed.