اسمارٹ سلیپ بڈز، جن سے ملے ایک پرسکون نیند
آج سے کوئی دو سال قبل ‘ہش’ (Hush) نامی ایک کمپنی نے اسمارٹ ایئرپلگس جیسی غیر معمولی چیز پیش کی جو نیند کے دوران آپ کو اردگرد کے ماحول سے بے نیاز کر دیتے تھے لیکن پھر ادارہ اچانک خاموش ہوگیا، ہو سکتا ہے صارفین کے فون بھی نہ اٹھاتا ہو لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ دراصل ایک بہت بڑے ادارے ‘بوس‘ (Bose) نے ہش کو خرید لیا تھا، جو اب اِن نوائس-ماسکنگ بڈز (noise-masking buds) کو انڈیگوگو پر کراؤڈفنڈنگ مہم کے ذریعے ایک مرتبہ پھر زندہ کر رہا ہے۔
نئے بوس "سلیپ بڈز” ہش کے مقابلے میں کافی ری ڈیزائن کیے گئے ہیں، لیکن مقصد ان کا بھی وہی ہوگا: نیند کے دوران پریشان کرنے والی آوازوں کو روکنا چاہے وہ خراٹوں کی ہوں، گلی میں کتوں کے بھونکنے کی، کسی کی پروا نہ کرنے والے پڑوسیوں کی یا پھر سڑک پر گزرنے والے بے ہنگم ٹریفک کی اور یوں آپ کو ملے گی ایسی پرسکون نیند ، جس کے آپ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ خواب تب دیکھیں گے جب نیند آئے گی۔ ارے ہاں! یاد آیا، بالکل پریشان مت ہوں الارم سلیپ بڈز کے اندر ہی ہوگا جو آپ کو اپنی اسمارٹ فون ایپ کے ذریعے سیٹ کریں گے۔
آپ کا کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ آخر بوس جیسے بڑے ادارے اور برانڈ کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان سلیپ بڈز کو کراؤڈفنڈنگ کے ذریعے میدان میں لا رہا ہے؟ اسے تو براہ راست لانچ کرنا چاہیے اور پھر کیا یہ کراؤڈفنڈنگ کے اصولوں کے خلاف نہیں؟
آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ روح کئی سال پہلے ختم ہو چکی تھی۔ انڈیگوگو اور کک اسٹارٹر جیسی ویب سائٹس اب بڑے اور مستحکم اداروں کے لیے چاند ماری کی جگہ بن چکی ہیں۔ وہ یہاں اپنی مصنوعات کو ٹیسٹ کرتے ہیں، صارفین کی مدد سے مارکیٹ میں دلچسپی کی لہر پیدا کرتے ہیں، ابتدائی پروڈکٹ کی خامیاں دور کرنے کے لیے انہیں ایک عام پلیٹ فارم باآسانی مل جاتا ہے ، اگر یہاں کامیاب ہوگئے تو پروڈکٹ عالمی تقسیم کے لیے تیار اور اگر نہ ہوئی تو منصوبہ ختم!
بہرحال، بوس اس منصوبے کے لیے تقریباً نصف ملین ڈالرز تو حاصل کر ہی چکا ہے۔ 150 سے 185 ڈالرز کی قیمت کے سارے ایئرپلگس فروخت ہو چکے ہیں البتہ مہم مکمل ہونے میں ابھی 24 دن باقی ہیں اور توقع ہے کہ مزید بھی آ جائیں گی۔ ان کی فراہمی فروری 2018ء کے بعد کی جائے گی۔
ان سلیپ بڈز کے ساتھ اس کی تمام ایسسیسریز یعنی چارجر کیس وغیرہ سب کچھ دیا جائے گا:
اس کی مزید تفصیل جاننے کے لیے یہ وڈیو ملاحظہ کیجیے:
Comments are closed.