60سیکنڈ میں چارج ہونے والی بیٹری
اسمارٹ فون دن بدن جدید سے جدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ نت نئے فیچر متعارف ہو رہے ہیں۔ آج کے اسمارٹ فون اور 10 سال پرانے موبائل میں بس ایک قدر ہی مشترک رہ گئی ہے اور وہ ہے بیٹری۔ پرانے موبائل کے فیچر محدود ہوتے ہیں، اسکرین رنگین بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے موبائل کی بیٹری سرپٹ دوڑتی ہی رہتی ہے ۔ آج کل کے اسمارٹ فون جتنے جدید ہوتے جا رہے ہیں اتنی ہی اُن کی بیٹری استعمال کرنے کی بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ بیٹری کی ترقی کے لیے اتنا کام نہیں ہوا جتنا اسمارٹ فون کے لیے ہو رہا ہے۔اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی حامل بیٹری بنائی جائے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کےسائنسدانوں نے موبائل کے لیے ایسی بیٹری بنائی ہے جو صرف 60 سیکنڈ میں چارج ہو جائے گی۔ بیٹریوں کے حوالے سے یہ اس دہائی کی سب سے بڑی خبر ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایسی کئی خبریں گزشتہ چند سالوں سے متواتر آرہی ہیں۔ یہ نئی بیٹری جسے اسٹینفورڈ کے سائنس دانوں نے بنایا ہے، ایلو مینیئم گریفائٹ سے بنی ہے اور اس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تجارتی پیمانے پر اسے تیار کرنے کے لئے زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑے گی۔
اسٹینفورڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک ایسی ری چارج ایبل ایلو مینیئم بیٹری بنائی ہے جو موجودہ الکلائن بیٹریوں کی جگہ استعمال کی جاسکے گی۔ الکلائن بیٹریاں ماحول کے لیے ویسے ہی نقصان دہ ہے۔جبکہ لیتھیم آئیون بیٹریاں کبھی کبھارپھٹ بھی جاتی ہیں اور ان میں آگ بھی لگ جاتی ہے۔ اسٹینفورڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ ان کی تیار کردہ نئی بیٹری میں کبھی آگ نہیں لگے گی، چاہےکوئی اس میں برمے سوراخ بھی کر دے۔
ایلومینیم آئیون بیٹری میں ایک منفی چارج اینوڈ ہوتا ہے اور ایک مثبت چارج گریفائیٹ کیتھوڈ۔ سائنسدانوں نے ان دونوں کو آئیونک مائع برق پاش (الیکٹرو لائٹ) کے ساتھ پولیمر کی تہہ والی تھیلی میں سمو دیا ہے۔ ایلومینیم کو بیٹری کے لیے بہت اچھا میٹریل تصور کیا جاتا ہے مگر اس پر کام کرنا بہت مشکل ہے۔ اس سے ایسی بٹیریاں بن سکتی ہیں جو سستی ہوں، دیر تک چلیں، ا ن میں زیادہ بجلی محفوظ کی جا سکے اور اس میں آگ نہ لگے۔ اس طرح کی بیٹری بنانے میں اصل مسئلہ ایک ایسا مادہ بنانا تھا جو بار بار چارج اور ڈس چارج کرنے کے باوجود مناسب وولٹیج پیدا کرتا رہے۔
ہمارے زیر استعمال آج کل کے اسمارٹ فون میں لگی لیتھیم آئیون بیٹریاں چارج ہونے میں گھنٹوں لیتی ہیں مگر سام سنگ اور ایچ ٹی سی نے ایسی بیٹریاں بھی بنائی ہیں جو صرف 10 منٹ چارج کرنے پر کئی گھنٹے چل سکتی ہیں۔
ان بیٹریوں میں فاسٹ برسٹ موڈ 15 منٹ کی چارجنگ سے 25 فیصد تک بیٹری چارج کردیتا ہے۔ایمرجنسی موڈ سے آخری چند فیصد کی بیٹری لائف سے بھی اچھا خاصا ٹائم مل جاتاہے۔مگر یہ نئی ایلومینیم کی بیٹری ایک منٹ میں چارج ہونے کی خاصیت کے باعث باقی سب سے بہتر ہے۔اس کے علاوہ نئی ایلومینیم کی بیٹری کو 7500 بار چارج اور ڈسچارج کر کے چیک کیا جا چکا مگر اس کی گنجائش میں پھر بھی فرق نہیں پڑا۔ دولیتھیم آئیوں بیٹری 1000 سائیکل کے بعد ہی جواب دینا شروع کر دیتی ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی بیٹریاں صرف موبائل ہی نہیں بلکہ ایلومینیم آئیون ڈیزائن کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کو محفوظ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نیز، ان نئی بیٹریوںکو 1.5 وولٹ کے ڈسپوزیبل AA اور AAA بیٹریوں کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔
اس قدر اعلیٰ خصوصیات کی بیٹری اگرچہ تجرباتی کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے لیکن اسے تجارتی پیمانے پر قابل استعمال بنانے کے لئے کچھ رکاوٹیں ابھی بھی باقی ہیں۔ محققین پرامید ہیں کہ وہ ان مشکلات پر قابو پالیں گے۔
(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ مئی2015 میں شائع ہوئی)
Comments are closed.