آک رِج ( Oak Ridge) نیشنل لیبارٹری، امریکہ میں نصب ٹائٹن(Titan) سپر کمپیوٹر نے حال ہی میں دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹر کا سہرا اپنے سر سجا یا ہے۔ 17.59پیٹا (Peta) فلوپس کی زبردست رفتار کا حامل یہ سپر کمپیوٹر Crayنے تیار کیا ہے۔ ’’کرے‘‘ پچھلی کئی دہائیوں سے سپر کمپیوٹرز تیار کرتی آرہی ہے اور اس کے وجہ شہرت ہی دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹرز ہیں۔
یاد رہے کہ ایک پیٹا فلوپس اسپیڈ کا حامل سپر کمپیوٹر Quadrillion حسابات صرف ایک سیکنڈ میں انجام دے سکتا ہے۔ ایک Quadrillion کو لکھنے کے لئے ہمیں 1کے بعد 15صفر لگانے ہونگے۔
ٹائٹن سپر کمپیوٹر کی تیاری میں نہ صرف CPUبلکہ GPU یعنی گرافکس پروسیسنگ یونٹس کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہ دنیا پہلا ایسا سپر کمپیوٹر ہے جس میں GPUاستعمال کئے گئے ہیں اور اس نے 10پیٹا فلوپس کی رفتار حاصل کی ہو۔
اس سپر کمپیوٹر کا بنیادی مقصد گاڑیوں کے کم ایندھن اور تنوائی خرچ کرنے والے انجنوں کی تیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں پیش گوئی اور بائیو فیولز کے بارے میں تحقیق ہے۔ جبکہ اسے دیگر ادارے یا افراد بھی اپنی تحقیق کے لئے رقم ادا کرکے استعمال کرسکتے ہیں۔
ٹائٹن سے پہلے دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر آئی بی ایم کا سیکویا( Sequoia) تھا جو اب دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ اس طرح تین سال کے وقفے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پہلے دونوں سپر کمپیوٹرز امریکی ہیں۔
ٹائٹن کی تیاری میں AMDکے 18ہزار 688 آپٹرون پروسیسرز اور اتنے ہی Nvidia ٹیسلا جی پی یو استعمال کئے گئے ہیں۔ ہر آپٹرون پروسیسر میں کورز کی تعداد 16ہے۔ اس طرح پروسیسرز کے کورز کی کُل تعداد دو لاکھ99ہزار آٹھ بنتی ہے۔ٹائٹن میں وہی عمارت اور 200کیبنٹ استعمال کئے گئے ہیں جو جیگوار کے استعمال میں تھے۔ ٹھنڈا رکھنے اور بجلی کی فراہمی کا نظام بھی یہ جیگوار کا ہی استعمال کرتا ہے۔ اس طرح تقریباً 20ملین امریکی ڈالرز کی بچت کی گئی۔
ائٹن کو چلنے کے لئے 8.2میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جو جیگوار سے تقریباً ڈیڑھ میگا واٹ زیادہ ہے تاہم رفتار کے معاملے میں یہ جیگوار سے دس گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔ بجلی کی عدم فراہمی کی صورت میں متبادل انتظام بھی موجود ہیں جو اس سپر کمپیوٹر کو کبھی بند نہیں ہونے دیتے۔
ٹائٹن کی کل میموری 710ٹیرا بائٹس کی ہے اور اسٹوریج 10پیٹا بائٹس کی ہے۔ اس سپر کمپیوٹر پر بطور آپریٹنگ سسٹم UNICOS استعمال کیا جاتا ہے جو Crayکا تیار کردہ اور یونکس کو تبدیل شدہ ورژن ہے۔
اس پروجیکٹ کے ساتھ ہی کرے نے اپنے XC30آرکیٹیکچر کا اعلان کیا ہے جو اسے 100پیٹا فلوپس جیسی عظیم رفتار کا حامل سپر کمپیوٹر بنانے میں مدد کرے گا۔ اس آرکیٹیکچر کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اے ایم ڈی کے آپٹرون پروسیسر کے بجائے انٹل کے زیون پروسیسرز استعمال کئے جائیں گے۔ اس سے پہلے ’’کرے‘‘ اور اے ایم ڈی کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ یہ پہلے سے ڈوبتے اے ایم ڈی کے لئے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔ انٹل کے ساتھ کرے کے تعلقات میں بہتری ہورہی ہے۔ اسی سال کے اوائل میں انٹل نے کرے کی انٹر کنکٹ ٹیکنالوجی کو خرید لیا تھا۔ XC30میں ایک نئی انٹرکنکٹ ٹیکنالوجی ’’Aries‘‘متعارف کروائی گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا مالک انٹل ہے جس سے ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ مارکیٹ میں انٹل کی اجارہ داری قائم رہے گی۔ ہائی پرفارمنس ٹیکنالوجی میں سی پی یو سے زیادہ اہم انہیں ایک دوسرے سے جوڑنے والا نیٹ ورک ہوتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق XC30کا ہر بلیڈ ( سرور ریک) چار نوڈز پر مشتمل ہوگا اور ہر نوڈ میں دو زیون پروسیسر نصب ہونگے۔ ہر chassisمیں 16بلیڈ ہونگے اور ہر کیبنٹ میں تین چیسس۔ اس طرح ایک کیبنٹ کی اپنی مجموعی رفتار 66ٹیرا فلوپس تک ہوگی۔ کرے کے مطابق ایسے 1500کیبنٹ بنا کر 100پیٹا فلوپس کی رفتار حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں RAMبھی رفتار جتنی ہی عظیم ہوگی، یعنی 35پیٹا بائٹس۔
کرے کے اس منصوبے کے مدمقابل چینی سپر کمپیوٹر Tianhe-IIہے جو 2015ء تک مکمل کرلیا جائے گا اور اس کی رفتار بھی 100پیٹا فلوپس تک ہوگی۔ اگرچہ اس سپر کمپیوٹر کے بارے میں تفصیلات ابھی محدود ہیں مگر چینی منصوبہ سازوں کے مطابق رفتار کی یہ دوڑ یہی پر بس نہیں ہوجائے گی بلکہ اس سپر کمپیوٹر کی رفتار 2018ء تک ایک exaflopsیا 1ہزار پیٹا فلوپس تک پہنچا دی جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دوڑ میں پہلے بازی کون مارتا ہے، امریکہ یا چین!