کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے اسمارٹ فون صارفین کی ایک بڑی تعداد کے لئے یہ خبر کسی شاک سے کم نہیں تھی کہ اوبر اور کریم دونوں ٹیکسی سروسز کو بند کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ کریم اور اُوبر کی ٹیکسی سروسز بند نہیں کی جارہی، بلکہ لوگوں کا جینا بند کیا جارہا ہے۔ حالانکہ حقیقی خبر یہ ہے کہ قانونی معاملات کے طے ہوجانے تک ان سروسز کو بند کیا جارہا ہے اور ان قانونی معاملات کو طے کرنے کے لئے سرکاری ادارے کئی بار ان سروسز سے رابطہ کرچکے ہیں۔ چونکہ برسر اقتدار جماعت پر لعن طعن کرنا، رائی کا پہاڑ بنانا دنیا بھر میں لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے، اس لئے سوشل میڈیا پر جس کے منہ میں جو آرہا ہے، کہے جارہا ہے۔ حالانکہ یہ پابندی مستقل ہے نہ غیر متوقع۔ اُوبر اور کریم کی سروسز کے خلاف پہلے ہی دوسری ٹیکسی سروسز قانونی طور پر سرگرم ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانونی معاملات کیا ہیں جن کی وجہ سے ان سروسز کو عارضی طور پر بند کیا جارہا ہے؟
کسی بھی ملک یا شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ریگولرائز کرنے کے لئے حکومتی ادارے موجود ہیں جو اپنے دائرہ کار میں چلنے والی ہر اس گاڑی جو کہ عوام کی آمد و رفت کے لئے استعمال ہونی ہے کو قانون کے مطابق چلنے پر "مجبور” کرتے ہیں۔ ایک بس جو مقام الف سے ب تک جاتی ہے وہ اگر مقام الف سے مقام پ پر چلنا شروع کردے تو یہ خلاف قانون ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو کوئی بھی منافع بخش راستوں کے علاوہ کسی راستے پر گاڑی نہ چلائے۔اسی طرح یہ ادارے کرائے کا تعین کرتے ہیں اور چلنے والے گاڑیوں کے معیاری ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ اُوبر اور کریم بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک نئی شکل ہیں جن کے لئے مروجہ قوانین کی پاسداری لازم ہے۔ لیکن موجودہ ٹرانسپورٹ قوانین اُوبر اور کریم جیسی سروسز کے لئے نہیں بنائے گئے۔
یہاں سب سے اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ کریم اور اوبر خود کو ٹیکسی سروسز کہتی ہیں نہ سمجھتی ہیں۔ یہ خود کو ٹیکنالوجی کمپنی (یا دوسرے الفاظ میں کمیشن ایجنٹ ) کے طور پر پیش کرتی ہیں جو سواری اور گاڑی کے مالک کے درمیان رابطے کا ذریعہ فراہم کرتے ہیں اور اس رابطے کی فیس وصول کرتے ہیں۔ یہ تصور دنیا کے لئے جتنا نیا ہے، قانون کے لئے بھی اتنا ہی انوکھا ہے۔ اب بھلا آپ موجودہ قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی ایسی کمپنی سے منٹینس سرٹیفکیٹ کیسے مانگ سکتے ہیں جس کے پاس کوئی گاڑی ہی نہیں۔ جبکہ اسی کمپنی کے ایک اشارے پر ہزاروں گاڑیاں ادھر سے ادھر دوڑنے لگتی ہوں؟ اس لئے یہ سروسز خود کو ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے دائرہ کار سے باہر سمجھتی ہیں۔دوسری جانب ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ انہیں ٹیکسی سروس سمجھ کر قانون کی عمل داری چاہتا ہے۔ اُوبر اور کریم کرائے کا تعین خود کرتے ہیں، جبکہ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ اسے اپنا اختیار سمجھتا ہے۔ اُوبر جو اس نوعیت کی سروسز کی بانی کمپنی ہے، کے لئے قانونی پیچیدگیاں دنیا کے ہر ملک میں رہی ہیں اور پاکستان کی طرح وہاں بھی اس پر عارضی پابندیاں لگتی رہی ہیں۔ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ صوبائی ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ ان دونوں سروسز سے کئی بار رابطہ کرچکا ہے لیکن ان سروسز کی جانب سے ڈپارٹمنٹ کو جواب نہیں دیا گیا۔
تصویر کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ سرمایہ کاروں نے ان سروسز کو آسان اور ٹیکس فری آمدن کا ذریعہ سمجھ کر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ دس بارہ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرکے ماہوار پچاس سے ایک لاکھ روپے تک ٹیکس فری کمائی کسی دوسرے کاروبار میں شاید ہی ممکن ہو۔ کراچی میں ایسے کار شو روم ڈھونڈنا مشکل نہیں جو لوگوں سے گاڑیاں لیکر انہیں پہلے سے متعین ماہوار رقم (جو بیس سے چالیس ہزار روپے تک ہوتی ہے) دیتے ہیں اور ان گاڑیوں کو کریم اور اوُبر میں اپنے ڈرائیوروں کے ذریعے چلوا کر مفت میں پیسے کماتے ہیں۔ اس وقت وہ تمام شہر جہاں اُوبر یا کریم کی سروس چل رہی ہے، میں کوئی نئی فیول افیشنٹ گاڑی مثلاً Mira یا Aqua ڈھونڈا مشکل ہوگیا ہے اور پرانی گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ ایسی گاڑیاں اب کریم یا اُوبر کے لئے بہترین ہیں۔
میں ذاتی طور پر اس پابندی (جوشاید لگنے سے پہلے ہی ختم ہوجائے) کو کریم اور اوُبر کے لئے بہتر سمجھتا ہوں۔ اس پابندی کے نیتجے میں حکومتی اداروں کے ساتھ ان کمپنیوں کے قانونی معاملات جلد طے ہونے کا امکان ہے اور ساتھ ہی دوسری آنے والی کمپنیوں کے لئے راہ بھی ہموار ہوگی۔ جبکہ ٹیکس چوروں کا سدباب بھی ممکن ہوسکے گا۔ میں نہیں چاہوں گا کہ اوُبر یا کریم دوسرے ٹرانسپورٹرز کی طرح عدالتی اسٹے آرڈر لے کر کام جاری رکھیں۔
لیکن ایک روسن صبح کو ایک دم بند کر کے سب لوگوں کو تکلیف دینا کہاں کا انصاف ہے ؟
ایسا آپ کو لگتا ہے کہ یک دم بند کی گئی ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر یہ کمپنیاں حکومتی اداروں کے قانونی خطوط کو خاطر میں نہیں لاتیں تو حکومت کی ذمے داری ہے کہ اپنی رِٹ قائم کرے۔