بعض لوگ ڈارک ویب اور ڈیپ ویب (Deep Web) کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیپ ویب کا حجم اُس ورلڈ وائیڈ ویب سے پانچ سو گنا زیادہ ہے جس تک ہمیں رسائی حاصل ہے۔ اسے بعض اوقات سمندر میں بہتے آئس برگ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا اوپری حصہ عام ویب یا سرفیس ویب جبکہ پانی کے نیچے موجود حصہ ڈیپ ویب ہے۔
ڈارک ویب بمقابلہ ڈیپ ویب
ڈیپ ویب دراصل وہ ویب سائٹس یا آن لائن سروسز ہیں جن تک عام لوگوں کو رسائی حاصل نہیں ہوتی ۔ انہیں کوئی سرچ انجن بھی انڈیکس نہیں کرتا اس لئے گوگل جیسے سرچ انجن پر تلاش کرنے پر بھی ان کا کوئی ربط نہیں ملتا۔ ڈیپ ویب کی مثال کے طور پر ایک آن لائن ڈیٹا بیس پیش کیا جاسکتا ہے جس میں تلاش کے لئے آپ کو کچھ آپشن منتخب کرنے ہوتے ہیں یا Captcha ٹائپ کرنا پڑسکتا ہے۔ چونکہ کوئی سرچ انجن ایسا نہیں کرسکتا، اس لئے آپشن منتخب کرنے کے نتیجے میں جو ڈیٹا ملتا ہے، وہ سرچ انجن کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر بے شمار خفیہ سروسز چل رہی ہیں۔ ڈارک ویب بھی دراصل ڈیپ ویب کا ہی حصہ ہے، لیکن یہ ڈیپ ویب کے حجم کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔
ورلڈ وائیڈ ویب کی تشکیل
سر ٹم برنرزلی سے کون واقف نہیں۔ موصوف1980ء میں CERN سے منسلک ہوئے جو دنیا کی سب سے بڑی ذراتی طبیعیات کی لیبارٹری چلانے کا ذمے دار ادارہ ہے۔ اس لیبارٹری میں کام کے دوران انہوں نے ہائپر ٹیکسٹ (ایک دوسرے سے بذریعہ لنک مربوط دستاویزات) کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ENQUIRE نامی پروجیکٹ کا منصوبہ پیش کیا۔ اس پروجیکٹ کا مقصد سرن کے محققین کے لئے ایک دوسرے تک تازہ معلومات کی تیز رفتار ترسیل تھی۔ کچھ ماہ بعد سرن میں کام کرنے کے بعد ٹم برنرزلی نے نوکری کو خیر آباد کہہ کر ایک نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کی جہاں انہیں کمپیوٹر نیٹ ورکس کے بارے میں سیکھنے کو ملا۔ موصوف 1984ء میں ایک بار پھر سرن سے منسلک ہوگئے اور 1989ء تک سرن یورپ کا سب سے بڑا کمپیوٹر نیٹ ورک بن چکا تھا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹم برنرزلی کہتے ہیں ”مجھے بس ہائپر ٹیکسٹ کے خیال کو ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول (TCP) اور ڈومین نیم سسٹم کے خیال کے ساتھ ملانا تھا اور اس کے نتیجے میں ورلڈ وائیڈ ویب تشکیل پا گیا۔ ویب بنانے کی اصل وجہ مایوسی تھی کیونکہ جب میں سرن میں کام کررہا تھا، اِس کے بغیر صورت حال بہت مشکل تھی ۔ ویب کی تشکیل میں کارفرما زیادہ تر ٹیکنالوجیز جیسے ہائپر ٹیکسٹ ، انٹرنیٹ، ایک سے زیادہ فونٹ میں متن لکھنے کی صلاحیت پہلے سے ہی بنائی جاچکی تھیں۔ مجھے بس انہیں ایک جگہ یکجاں کرنا تھا۔ “
6اگست 1991ء کو ٹم برنرزلی ورلڈ وائیڈ ویب کو باقاعدہ طور پر منظر عام پر لے آئے۔ اس کے بعد آنے والے وقت میں ورلڈ وائیڈ ویب نے ”گولی“کی رفتار سے ترقی کی۔ چند ہی سالوں میں لاکھوں ویب سائٹس آن لائن ہوگئیں۔ نت نئی سروسز شروع ہوگئیں اور زندگی ایک نئے ڈگر پر چل نکلی۔ ورلڈ وائیڈ ویب کو انسانیت پر ایک احسان کا درجہ حاصل ہوگیا اور دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر اسکرین میں سما گئی۔ اس کے ثمرات دنیا بھر میں نظر آنے لگے اور ہمارے روز مرہ کے کاموںکے لئے انٹرنیٹ اور بالخصوص ورلڈ وائیڈ ویب کی محتاجی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی۔ تیز رفتار رابطوں کے لئے خطوط کی جگہ ای میلز نے لے لی اور اہم سرکاری دستاویزات وراز جو کبھی سرکاری دفتروں کی الماریوں میں دفن ہوجاتے تھے ، ڈیجیٹل شکل اختیار کرنے لگے۔
مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لیے نیچے موجود صفحات کے نمبرز پر کلک کریں