10 سال تک اپنی بات کو 140 حروف کے اندر بیان کرنے کی کوششیں کرنے کے بعد بالآخر ہمیں ‘کھیلنے’ کے لیے بڑا میدان دے دیا گیا ہے۔ ٹوئٹر پر حروف کی حد کو دوگنا کرنے کا تجربہ گزشتہ چند ماہ سے جاری تھا اور اب سب کواجازت دے دی گئی ہے کہ وہ 280 حروف تک کے ٹوئٹس کر سکتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی "چھوٹ” دینے کے باوجود کوئی بھی خوش نہیں دکھائی دیتا۔
بلاشبہ 140 حروف کی حد اکثر و بیشتر بڑا چیلنج ہوتی تھی، جس کی وجہ سے اپنی بات پر بارہا غور کرنا پڑتا تھا کہ کسی طرح محدود الفاظ میں ہو جائے۔ لیکن یہی وہ پہلو تھا جو صارفین کو کم سے کم الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر مجبور کرتا تھا اور بہتر گفتگو کرنا سکھاتا تھا۔ تو اب یہ سوال بالکل منطقی ہے کہ کیا 280 الفاظ فی ٹوئٹ کی نئی حد کارآمد ہوگی یا مسائل پیدا کرے گی؟ بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے سوشل میڈیا پر کام کرتے ہیں جیسا کہ پی آر اور کمیونی کیشنز کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے۔ اس بارے میں تو وقت ہی بتائے گا لیکن فوری طور پر ہمیں جو تین مسئلے درپیش ہیں، وہ یہ ہیں:
٭ جو لوگ ٹوئٹر پر بکواس کرتے ہیں، انہیں بکواس کرنے کے لیے دوگنی گنجائش مل گئی ہے
٭ وہ کاروباری ادارے جو اپنی مصنوعات اور خدمات کے لیے ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں انہیں سر کھپانے کے لیے مزید الفاظ مل گئے
٭ اور سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ‘میگافون’ اب ڈبل سائز کا ہو گیا ہے
تو کیا 280 الفاظ کی حد ٹوئٹر کو مزید ہنگامہ خیز بنا دے گی؟ لگتا تو ایسا ہی ہے لیکن ٹوئٹر کی تحقیق کچھ اور کہتی ہے:
انگریزی زبان میں کی جانے والی 9 فیصد ٹوئٹس ایسی ہیں جو الفاظ کی حد تک جا پہنچتی ہیں۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ بات کو بیان کرنے میں صارفین کو چیلنج کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے انہیں بڑا وقت ٹوئٹ کو ایڈٹ کرنے میں لگانا پڑتا ہے۔ اب حد میں اضافے سے یہ مسئلہ تو کافی حد تک حل ہو جائے گا بلکہ گرتے گرتے 1 فیصد تک آ جائے گا۔ ادارہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنے ٹوئٹ کو ایڈٹ کرنے میں کم وقت لگائیں اور اپنے خیالات کو ایک ٹوئٹ میں پیش کرنے میں انہیں آسانی ملے۔ پھر یہ کام زیادہ تیزی سے بھی ہوگا۔
پہلے مرحلے میں ٹوئٹر نے پایا کہ جن افراد کو تجرباتی طور پر زیادہ الفاظ کی سہولت دی گئی تھی ان کے ٹوئٹس پر زیادہ رابطے ہوئے جیسا کہ لائیکس، ری ٹوئٹس اور mentions، انہیں زیادہ فالوورز ملے اور انہوں نے ٹوئٹر پر زیادہ وقت گزارا۔ تجربے میں شامل افراد نے بتایا کہ اس حد میں اضافے سے انہیں زیادہ اطمینان محسوس ہوا کہ وہ اپنا خیال کو بہتر انداز میں ٹوئٹر پر بیان کر سکتے ہیں، اچھا مواد تلاش کر سکتے ہیں اور مجموعی طور پر ٹوئٹر پر اچھا تجربہ لے سکتے ہیں۔
تو مختصر الفاظ میں یہ کہ اس جدت کا اصل نتیجہ دیکھنے کے لیے انتظار کریں۔ 280 الفاظ کی حد کا مطلب یہ نہیں کہ بات اتنے ہی الفاظ میں بیان کرنی ہے۔ اگر ہم 140 الفاظ کے عادی ہوگئے ہیں تو ہم اتنے میں بھی کر سکتے ہیں۔ تمام سوالوں کا ایک جواب ہے کہ ٹوئٹر پر اچھا مواد پیش کریں۔ باقی تشہیری مواد اور بکواس تو 140 الفاظ میں بھی بری تھی اور اب تو مزید بری ہو جائے گی۔