آئی ٹی سرٹی فکیشن امتحانات کے سچ اور جھوٹ‎

نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن نقل اگر آئی ٹی پروفیشنل سرٹیفکیشن جیسے امتحان کی ہو تو یہاں عقل والے نقل کرنے کے لیے ایسی ’جگاڑیں‘ کھوجتے نظر آتے ہیں جن کو سمجھنے اور روکنے کے لیے نگراں اداروں کے دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ امتحانات چاہے اسکول کے ہوں یا یونی ورسٹی کے، ان میں نقل، دھوکا دہی اور جعلی ڈگری کا حصول ایسے ’کارنامے‘ ہیں جنھیں پاکستان میں رائے عامہ کے مطابق ’قومی کھیل‘ خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت میں نقل کا رجحان ہمیشہ سے ہی دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے سر درد رہا ہے۔

پروفیشنل سرٹیفکیشن پروگرام بھی اس وبا سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ ملازمت میں ترقی، تنخواہ میں اضافہ اور بہتر ادارے میں ملازمت جیسے محرّکات ان سرٹیفکیشن کے حصول میں نقل اور دھوکا دہی کے رجحانا ت کو جنم دیتے ہیں۔ مثلاً نوے کی دہائی کے آغاز میں انجینئرز بڑی تعداد میں سرٹیفائیڈ نیٹ ویئرانجینئر سرٹیفکیشن حاصل کرتے تھے۔ اس سرٹیفکیشن کے حامل افراد کو ملازمت بھی اچھی ملتی تھی اور تنخواہ بھی۔ ذرا عرصے بعد ہی انجینئرنگ کے حلقوں اور متعلقہ صنعتوں میں ان سرٹیفائیڈ پروفیشنلز کے معیار کے بارے میں تشویش پیدا ہو گئی اور ایک اصطلاح ’پیپر سرٹیفائیڈ نیٹ وئیر /نویل انجینئر‘ نے جنم لیا ۔ یہ وہ انجینئر تھے جنہوں نے پیپر کسی بھی طرح کامیابی سے پاس کرکے سند تو حاصل کرلی لیکن ان کے پاس کام کرنے کا تجربہ تھا نہ سلیقہ۔ اس سرٹیفکیشن پروگرام میں دھوکا دہی کے رجحان نے بالآخر اس سند کے معیار اور اعتبار کو ختم ہی کر دیا۔

ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ مائیکروسافٹ، سسِکو، اوریکل اور دیگر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ کمپنیوں کی مصنوعات میں اپنی مہارت ثابت کرنے کے لئے امتحانات دیتے ہیں۔آئی ٹی سرٹیفیکیشن پروگراموں کو بھی انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی عام ڈگری اور سرٹیفکیٹ پروگرام کو درپیش ہوتے ہیں۔ تاہم یہ پروگرام فراہم کرنے والے اور امتحانی مراکز میں نگرانی کرنے والے ان سرٹیفکیشنز کی ساکھ بحال رکھنے کے لیے نقل اور دھوکا دہی کے رجحانات کے خلاف برسرِ پیکار نظر آتے ہیں۔ ان کو درپیش سب سے اہم چیلنج، نقل اور دھوکا دہی کے ذریعے سرٹیفکیشن حاصل کرنے کے ان تمام ذرائع اور نت نئے طریقوں کو روکنا ہے جو لوگ استعمال کر سکتے ہیں۔

مثلاًلوگ امتحانی مراکز میں بلیوٹوتھ ائیر پیس اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کا جاسوس کیمرہ لے کر آسکتے ہیں اس سے وہ ویڈیو کال پر موجود اس کورس کے ماہر کو سوال دِکھا کر جواب سن سکتے ہیں۔ ’Brain Dump‘ سائٹس سے چوری شدہ مواد خرید کر سوال و جواب یاد کرسکتے ہیں یا آن لائن چیٹ رومز میں سوال و جواب شیئر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح سرٹیفکیشن کے خواہش مند لوگ خود پیپر دینے کے بجائے کسی ماہر کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی جگہ خود جا کر ٹیسٹ دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ موقع پا کر چپکے سے اسمارٹ فون کا استعمال کرنا مثلاً ایس ایم ایس کرنا یا سوالات کی تصویر اتار کر بھیجنا یا آن لائن سرچ کرنا وغیرہ۔ لوگ پرانے نسخے بھی استعمال کرسکتے ہیں مثلاً کارتوس، بوٹی، یا پھرّے یا ہتھیلی پر جوابات یا فارمولے وغیرہ لکھنا وغیرہ۔

ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق آئی ٹی سرٹیفکیشن تنخواہ میں اضافے اور کیرئیر میں ترقی کے لیے بنیادی ذریعہ بن چکی ہے۔ لہٰذا سرٹیفکیشن کی مقبولیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ نقل اور جعل سازی بھی بڑھ چکی ہے۔ جہاں نوکریوں اور تنخواہوں کو خطرات لاحق ہوں وہاں لوگ انہیں بچانے کے لئے ہر قسم کے طریقے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

برین ڈمپس ویب سائٹس نے آئی ٹی سرٹیفکیشنز کی ساکھ کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ بدقسمتی سے ان ویب سائٹس سے تیاری کرنے والے بڑی تعداد میں اپنا امتحان کامیابی سے پاس کرلیتے ہیں۔

تاہم اس حوالے سے یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ملازمت پر رکھے جانے والے شخص نے آئی ٹی سرٹیفکیشن حاصل کرنے کے لئے کوئی غلط طریقہ استعمال کیا ہے یا نہیں۔ اسی لیے سرٹیفکیشن کے نگراں اداروں کی طرف سے ’بھروسہ کرو لیکن تصدیق کرو ‘ کے مصداق یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ مکمل اطمینان کے لئے ملازمت دینے والوں کو سرٹیفکیشن کے ادارے سے رابطہ رکھنا چاہیئے۔ Caveon LLC ایک مشاورتی(کنسلٹینسی) کمپنی ہے جو ڈیٹا فورینسک کے ساتھ ٹیسٹ کی نگرانی میں مہارت رکھتی ہے۔ اس کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ ملازمت پر رکھنے والی کمپنیاں زیادہ تر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ تصدیق شدہ آئی ٹی سرٹیفکیشن قانونی طور پر حاصل کی گئی ہے۔ محض چند گندے انڈوں نے آئی ٹی پیشے کے افراد کی قابلیت کو مشتبہ بنا ڈالا ہے۔ اسی لیے احتیاط کے طور پر آئی ٹی سرٹیفکیشن کسی شخص کو ملازمت پر رکھنے کے فیصلے کا صرف ایک حصّہ ہونا چاہیئے۔ اس کے ساتھ قابلیت کی تصدیق کے لیے مزید اقدامات بھی ہونے چاہیئے مثلاً دیئے گئے شخصی حوالوں کی جانچ، سابقہ ملازمتوں کے ریکارڈ کی تحقیقات اور کچھ محتاط سوالات پوچھنا جو یہ اندازہ لگانے کے لیے ترتیب دیئے گئے ہوں کہ امیدوار واقعی اپنے شعبے کے متعلق علم رکھتا ہے کہ نہیں۔

مائیکروسافٹ اور CompTIA جیسے آئی ٹی سرٹیفکیشن پروگرامز تشکیل دینے والی کمپنیاں پرومیٹرک (Prometric) اور Preason VUE جیسے ٹیسٹنگ سینٹروں سے معاہدہ کرتے ہیں۔ یہ سینٹر بالکل ویسے ہی کام کرتے ہیں جیسے پاکستان میں نیشنل ٹیسٹنگ سینٹر (NTS) کا ادارہ کام کرتا ہے۔ یہ ٹیسٹ سینٹرز آئی ٹی کمپنیوں کی جانب سے دنیا بھر میں ٹیسٹ کا انتظام اور نگرانی کرتے ہیں۔ یہ سینٹر ٹریننگ کی خدمات بھی فراہم کرتے ہیں لیکن یہ ٹیسٹنگ سینٹر ٹریننگ اور ٹیسٹنگ کے کاروبار کے درمیان ایک دیوار قائم رکھتے ہیں تاکہ ایسا محسوس نہ ہو کہ ان کے ٹیسٹنگ سینٹر میں تعلیم حاصل کرنے والے کو دیگر اداروں سے تربیت لینے والوں پر کسی قسم کی سبقت حاصل ہوتی ہے۔

آئی ٹی سرٹیفکیشن فراہم کرنے والے ادارے اپنی گرتی ہوئی ساکھ سے پریشان ہیں۔ اس لیے وہ اپنے ٹیسٹ ڈیٹا کی پائریسی کو روکنے اور نقل کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے مزید بہتر طریقے اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری جانب نقل کرنے والے ہر وہ طریقہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔ ایک طریقے میں یہ دیکھا گیا کہ امیدواروں کا ایک گروپ باقی امیدواروں سے واضح سبقت لیتا رہا ہے۔ ایسے امیدوار اپنی جگہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور بمشکل حرکت کرتے تھے۔ وہ ایک سے دو سوال فی منٹ کی عمومی رفتار سے کہیں تیز چھ سوال فی منٹ کی رفتار سے حل کرتے تھے اور ان کے حاصل کردہ نمبر کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ CaveonLLC کی تحقیق و تفتیش کے مطابق امیدوار گویا ویڈیو کیمرہ اور بلیوٹوتھ استعمال کرتے ہوئے کال پر مضمون کے ماہر سے رابطے میں ہیں۔ یہ آلات spycheatstuff.com جیسی آن لائن ویب سائٹس سے بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ نقل کرنے والے امیدوار یہاں سے لا سلکی (وائرلیس) اسپیکر خرید سکتے ہیں جو ان کے کان کے کافی اندر فٹ ہو سکتے ہیں جہاں سے وہ آسانی سے نظر نہیں آتے۔ اس کے علاوہ ننھے خفیف سے جاسوسی کیمرے بھی خریدے جاسکتے ہیں جو آسانی سے چھپائے جا سکیں۔ ایسی صورتِ حال میں نقل کرنے والے ہر ممکن حد تک کوشش کرتے ہیں کہ وہ ساکت بیٹھے رہیں تاکہ اپنے کیمرے کو پرچے کا صاف منظر دے سکیں۔

جو لوگ ٹیسٹ میں پکڑے نہیں جاتے انہیں تب بھی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ PearsonVUE ہر ٹیسٹ کا ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈ رکھتا ہےاور اسے اپنی تحقیقا ت میں استعمال کرتا ہے۔ ایک کیس میں ادارے کی اسکروٹنی ٹیم نے نوٹ کیا کہ ایک امیدوار اپنے سر کو غیر معمولی انداز میں حرکت دے رہا تھا۔ مزید تفتیش پر معلوم ہوا کہ اس نے اپنی عینک میں کیمرہ چھپایا ہوا تھا۔

مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ لوگوں کے نقل کرنے کا انداز بدل رہے ہیں اور وہ زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنےلگے ہیں۔ لیکن سب سے عام طریقے جس کے ذریعے لوگ نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ زیادہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل نہیں ہوتے۔ زیادہ تر رجحان اب غیر فعال نقل کے طریقوں کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ جیسے برین ڈمپ ویب سائٹس کا استعمال یا پراکسی ٹیسٹنگ سروسز کی مدد لینا وغیرہ۔ مائیکروسافٹ ایسے امیدواروں کو پکڑ چکا ہے جو ان ویب سائٹس پر سوال و جواب پوسٹ کر رہے تھے یا خرید رہے تھے۔ اسی طرح ایسے امیدوار بھی پکڑے جاچکے ہیں جو روایتی طریقے استعمال کر رہے تھے جیسے امتحان میں دوسرے لوگوں کی نقل کرنا، فون کا استعمال کرتے ہوئے میسج کرنااور حتیٰ کہ کسی اور کی اسکور رپورٹ کو تبدیل کرکے اپنا نام لکھنا وغیرہ۔

کئی برین ڈمپس ویب سائٹس سے چوری شدہ مواد صرف قیمتاً ہی نہیں بلکہ مفت بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشتر ویب سائٹس کی کمائی اپنا سافٹ ویئر بیچنے سے ہوتی ہے جو امتحانات کی تیاری میں معاونت کرتا ہے

برین ڈمپس ویب سائٹس آئی ٹی سرٹیفکیشن پروگرامز کے لئے کسی زہر جیسی ثابت ہورہی ہیں۔ ان کی مثال ہمارے یہاں امتحانات کی تیاری کے لئے دستیاب Guess Papers یا فائیو ایئرز (جن میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران امتحانی پرچوں میں آنے والے سوالات اور ان کے جوابات موجود ہوتے ہیں)جیسی ہے۔ ان کے ذریعے تیاری کرنے والے اکثر طلبہ امتیازی نہ سہی لیکن پاس ہو ہی جاتے ہیں۔ برین ڈمپس ویب سائٹس میں سے بیشتر براعظم ایشیاء میں یا ایسے ممالک (مثلاً یوکرین) سے چلائی جارہی ہیں جہاں انہیں بند کرنا اور ان کے مالکان کو سزا دلوانا بہت مشکل ہے۔ کچھ ممالک میں ایسی ویب ہوسٹنگ بہ آسانی خریدی جاسکتی ہے جس پر ہر قسم کا غیر قانونی مواد شائع کیا جاسکتا ہے اور ہوسٹنگ کمپنی خریدار کی معلومات بھی طلب نہیں کرتی۔ ایشیا میں قائم بعض ٹیسٹنگ سینٹروں میں زیادہ سختی نہیں ہوتی اور وہاں سے امتحان کے سوالات اور دیگر مواد چوری یا نقل کیا جاسکتا ہے۔

برین ڈمپس ویب سائٹس کے مالکان یا درست الفاظ میں ’قزاق‘ امتحانی سوالات اور ان میں شامل تصاویر وغیرہ چوری کرنے کے لئے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ ان میں سب سے عام طریقہ مخصوص ٹیسٹنگ سینٹروں میں اپنے بندوں کو امتحان دلوانا ہے جو امتحان کے دوران آنے والے سوالات اور ان کے ممکنہ جوابات کو یاد کرتے ہیں یا ان کی تصاویر لیتے ہیں۔ کسی امتحان میں آنے والے سوالات کا ایک ڈیٹا بیس بنانے کے لئے انہیں درجن بھر لوگوں کو ٹیسٹ دلوانا ہوتا ہے۔

آیان قریشی نے صرف پانچ سال کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان کامیابی سے پاس کرلیا۔ ستمبر 2014ء سے یہ اعزاز انہی کے پاس ہے۔ اتنے کم عمر بچوں کا پروفیشنل امتحان پاس کرلینا ان کی قابلیت کی دلیل تو ہوسکتا ہے، لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر کوئی پروفیشنل امتحان کوئی بچہ اتنی کم عمر میں پاس کرسکتا ہے تو اس سرٹیفکیشن کا معیار کیونکر تسلیم کیا جائے گا؟ کیا اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد یہ بچہ کسی ادارے میں وہی کام کرسکتا ہے جو ایک مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل سے توقع کیا جاتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پانچ سال کا بچہ ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرکے ڈاکٹر بن جائے؟

بدعنوان یا ایسے مراکز جہاں زیادہ سختی نہ ہوتی ہو وہاں سے ٹیسٹ ڈیٹا کی چوری نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ چوں کہ تمام ٹیسٹ اور ان کی جوابی کاپیاں ہر امتحانی مرکز کے سرورز پر ڈاؤن لوڈ ہو جاتی ہیں، اسی لیے وہ ڈیٹا بھی ہیک ہونے کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔ یہ تمام باتیں سرٹیفکیشن باڈیز کے لیے بے حد تکلیف دہ رہی ہیں۔ اسی لیے اب سرٹیفکیشن اور امتحان لینے والے ادارے SaaS یا Software as a Service کی طرز پر امتحان کا طریقہ اپنارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک سرٹیفکیشن سروسز فراہم کرنے والی کمپنی کسی بھی امتحانی مرکز کو بدعنوان یا غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پا کر اسے بند کردیتی ہے۔

کبھی کبھی برین ڈمپ ویب سائٹس استعمال کرنے والا خود بھی دھوکا کھا جاتا ہے۔یہ ویب سائٹس پیسے لے کر ’بکروں‘ کو غلط یا تلف شدہ ڈیٹا بھیج دیتی ہیں۔ بعد میں امیدوار لاکھ روتا پیٹتا رہے، اسے اس کی رقم واپس نہیں ملتی۔

ارفع کریم رندھاوا‎‎(مرحومہ) نے 2004ء میں صرف نو سال کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان کامیابی سے پاس کیا۔ یوں یہ دنیا کی کم عمر ترین ایم سی پی بن گئیں اور پاکستان میں انہیں آئی ٹی ماہر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ لیکن درحقیقت اتنی کم عمری میں پروفیشنل امتحان کامیابی سے پاس کرنا اس امتحان کے لئے فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ اس امتحان کی اہلیت و افادیت مزید مشکوک ہوگئی۔

آئی ٹی کی صنعت سے وابستہ سبھی ماہر اس رائے سے متفق ہیں کہ لوگ جتنی توانائی اورتخلیقی صلاحیت نقل و فریب کے لیے استعمال کرتے ہیں ، اگر یہ مطالعے پر خرچ کریں تو وہ اس سے کہیں بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

ان قزاقوں کے جواب میں آئی ٹی سرٹیفکیشن باڈیز برین ڈمپ سائٹس، جہاں قزاق چوری شدہ ڈیٹا کو فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، پر مربوط حملے کر چکی ہیں۔ جن میں اس جرم کی روک تھام کے احکامات قانون میں شامل ہونا اور پولیس ریڈ بھی شامل ہیں۔ ان آئی ٹی سرٹیفکیشن باڈیز کی کوشش ہے کہ برین ڈمپس ویب سائٹس کو کم سے کم کرنے کے لئے بہترین حکمت عملی اپنائی جائے۔ تاہم ایسا کرنا ناممکن جیسا کام ہے۔ ایک ویب سائٹ بند کرنے سے ویسی ہی درجن بھر نئی ویب سائٹس آن لائن ہوجاتی ہیں۔ ٹورینٹس ویب سائٹس اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے آئے دن کسی نہ کسی ٹورینٹ ویب سائٹ کو کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کے الزام میں بند کردیتے ہیں، لیکن ٹورینٹس ویب سائٹس کی تعداد گھٹنے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔

چناں چہ سرٹیفکیشن باڈیز اور نگراں ادارے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے فوری ردِّعمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ CompTIA آن لائن برین ڈمپ سائٹس اور چیٹ رومز کو چوری شدہ ٹیسٹ ڈیٹا کے لیے مانیٹر کرتی ہے۔ وہ اس ڈیٹا پر ہونے والی سازباز پر بھی نظر رکھتی ہے اور کسی گڑبڑ کے نتیجے میں وہ یہ ڈیٹا اٹھا لیتی ہے۔

زیادہ تر آئی ٹی سرٹیفکیشن امتحان ہر بارہ سے پندرہ مہینوں میں تبدیل کیے جاتے ہیں جبکہ منظّم چوری کے حلقے ٹیسٹ کی پہلی ریلیز کے تین سے پانچ ہفتوں کے اندر اس کی فروخت شروع کردیتے ہیں۔ لہٰذا ان کو روکنے کا عمل کافی مہنگا ہے۔ تاہم CompTIA کے مطابق ڈمپ سائٹس پر سوال ذرا لمبا عرصہ لیتے ہیں اورCompTIA بارہ سے پندرہ مہینوں سے پہلے انہیں تبدیل کردیتا ہے۔ ٹیسٹ ڈیٹا کو جلد تبدیل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ ٹیسٹ کو تیار کرنے کی قیمت سیکڑوں ڈالر فی سوال سے لے کر ہزاروں ڈالر فی سوال تک ہے۔ لہٰذا بڑے سرٹیفکیشن پروگرام کی بہ نسبت چھوٹے سرٹیفکیشن پروگرام سوالوں کو تیزی سے تبدیل کرنے میں سستی دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے سرٹیفکیشن پروگرام ہی برین ڈمپس ویب سائٹس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ٹیسٹ ڈیٹا چوری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے آئی ٹی سرٹیفکیشن فراہم کرنے والوں نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ اب ٹیسٹ ڈیٹا کو ٹیسٹ دینے والے کے کمپیوٹر تک انکرپٹ حالت میں پہنچایا جاتا ہے اور یہ ڈیٹا اسی وقت ڈی کرپٹ کیا جاتا ہے جب ٹیسٹ شروع کیا جاتا ہے۔ ہر امیدوار کے لئے ڈیٹا الگ خفیہ کلید سے ان کرپٹ کیا جاتا ہے، اس لئے ڈیٹا کی چوری کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔

CompTIA ٹیسٹ سینٹر کو سوالوں کے جوابات بھی نہیں بھیجتی۔ یہ حل شدہ پرچہ جات واپس لے لیتے ہیں اور آف لائن رہتے ہوئے اس کی اسکورنگ کر کے امیدوار کو نتیجہ بھیج دیتے ہیں۔ اس طریقے سے ٹیسٹ آئیٹمز زیادہ عرصے تک چوری سے محفوظ رہتے ہیں۔ تاہم آئی بی ٹی ہمیشہ موزوں نہیں رہتی۔ چونکہ اس کام کے لئے اچھی انٹرنیٹ بینڈ وڈتھ درکار ہوتی ہے، اس لئے کچھ ممالک جہاں انٹرنیٹ انفرا اسٹرکچر بہتر نہیں، وہاں اس ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

CompTIAجس کی ملکیت میںکئی مشہور آئی ٹی سرٹیفکیشنز ہیں، یہ ادارہ بڑھتے ہوئے پراکسی ٹیسٹنگ سے پریشان ہے۔ زیادہ تر پراکسی کے فراڈ میں امریکا میں موجود امیدوار کا چین میں کسی کو اس مقصد کے لئے کام پر رکھنا ہے۔ چند سال قبل ایک بڑی آئی ٹی سرٹیفکیشن ادارے نے پراکسی کے طریقے کو پکڑنے کے لیے Caveonسے رابطہ کیا۔ یہ سرٹیفکیشن پروگرام Caveon کو معاوضہ دیتے تھے اور وہ اسے ایک پراکسی سروس کو دیتے تھے۔ اس طرح ایک پراکسی سروس کے ذریعے Caveon کے ایک فرد نے یہ اعلیٰ سرٹیفکیشن حاصل کر لی حالاں کہ اس کا اس شعبے میں کوئی تجربہ بھی نہ تھا۔ چند سال قبل پراکسی کی قیمت ایک ہزار ڈالر تھی اور یہ رقم ویسٹرن یونین جیسے ذرائع کے ذریعے بھیجی جاتی تھی۔ اس کی شرائط میں پچاس فیصد ادائیگی امتحان سے پہلے اور پچاس فیصد ادائیگی کام مکمل ہوجانے کے بعد کرنی ہوتی تھی۔ پراکسی ٹیسٹ دینے والی سروسز امریکا سے باہر ایک بڑا کاروبارسمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ نقل و فریب امریکا سے باہر کسی اور جگہ پر روایتی طور پر زیادہ قابلِ قبول ہے۔ پراکسی ماہرین امیدوار کی جگہ جاکر ٹیسٹ دیتے ہیں اور اس سے اچھا پیسہ بناتے ہیں۔ کچھ ممالک میں یہ لوگ ایک پراکسی ٹیسٹ دے کر چھ مہینے کی تنخواہ کے برابر رقم کما لیتے ہیں۔

ایشیائی و دیگر ممالک میں جہاں ایسے امتحانی مراکز ہیں جو کسی نہ کسی طرح غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں یہاں پراکسی ٹیسٹنگ سیکیوریٹی پروٹوکولز سے کسی طرح بچتی آرہی ہیں۔ یہ امتحانی مراکز قانونی ’فرنٹ روم‘ یا غیر قانونی ’بیک روم‘ چلاتے ہیں۔ جب ایک امتحانی مرکز اپنا ذاتی پراکسی حلقہ چلاتا ہے تو ان سخت پروٹوکولز پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جو ان پراکسی کو پکڑنے میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ پراکسی ٹیسٹ سے بچنے کے لیے امتحانی مرکز عموماً امیدوار سے تصویری شناخت طلب کرتے ہیں۔ اب کچھ امتحانی مراکز نے بائیومیٹرک شناخت اور ڈیجیٹل دستخط کے ساتھ ساتھ امیدوار کی مرکز کے اندر تصویر بھی کھینچنا شروع کر دی ہے۔ جب ایک بار امیدوار ایک شناخت کے تحت رجسٹر ڈ ہو جاتا ہے تو وہ کسی اور کے لیے پراکسی کا کام نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ جس نے کسی پراکسی کے ذریعے کوئی سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہو، اگر وہ دوسرا ٹیسٹ دینے کی کوشش کرے گا تو پکڑا جائے گا کیوں کہ اس کی تصویر اور بائیو میٹرک ڈیٹا ایک جیسا نہیں ہوگا۔ ٹیسٹ سینٹر وں میں ٹیسٹ کی چیزوں کو بھی ڈیجیٹل ویڈیو میں ریکارڈ کر سکتے ہیں اور ٹیسٹ دینے والے کی تصویر سرٹیفکیشن رپورٹ میں لگا سکتے ہیں۔ لہٰذا پراکسی ٹیسٹنگ جو کبھی سرٹیفکیشن باڈیز کے لیے سوہانِ روح رہی ہے، ڈیجیٹل فوٹو اور ڈیجیٹل دستخط کی شمولیت سے تقریباً ختم ہوگئی ہے۔

تاہم پراکسی کا مکمل خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب ٹیسٹنگ سینٹر معاہدے کی مکمل پاسداری کریں۔ ایسے ٹیسٹنگ سینٹر جو امتحانی خدمات فراہم کرنےو الے ادارے (مثلاً PearsonVUE) کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں، وہاں پراکسی کے ذریعے امتحان دینا ممکن نہیں۔ لیکن وہ ٹیسٹنگ سینٹر جو ان اداروں سے الحاق شدہ ہوتے ہیں اور ایک معاہدے کے تحت ٹیسٹ لینے کے مجاز بنتے ہیں، میں پراکسی کے خلاف روک تھام کے لئے الحاق شدہ ادارے کی انتظامیہ کی ایمانداری پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور ایمانداری کو ناپنے کا کوئی آلہ آج تک ایجاد نہیں ہوسکا۔

نقل و فریب کرنے والوں کو پکڑنا خود ایک سائنس بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ عام ہونے سے ماضی کے مقابلے میں لوگ اب زیادہ معلومات کا تبادلہ کرنے لگے ہیں۔ تاہم مائیکروسافٹ کے مطابق آئی ٹی سرٹیفکیشن باڈیز اور ٹیسٹ سروسز فراہم کرنے والوں کے پاس ڈیٹا چوری کرنے والوں، شیئر کرنے اور استعمال کرنے والوں کی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع بھی بڑھے ہیں۔ مائیکروسافٹ ٹیسٹ کے نگران مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ آن لائن نگرانی بھی استعمال کرنے لگی ہے جس میں ٹیسٹ دینے والے کی کمپیوٹر اسکرین کی لائیو فیڈ کے ساتھ ویڈیو کیمرے کا استعمال بھی شامل ہے۔ ویڈیو کیمرے کی ریکارڈنگ کے ساتھ ساتھ ویڈیو کی آن لائن نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح ہر سوال کے لحاظ سے نقل کرنے والوں کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے ایکشن لینا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ آن لائن نگرانی کرنے والا بہتر طور پر مشکوک سرگرمیوں کو بھانپ کر ٹیسٹ وہیں ختم کر سکتا ہے۔

ٹیسٹ سینٹرز کے پاس یہ معلوم کرنے کے بھی طریقے ہیں کہ امیدوار نے چیٹ رومز یا برین ڈمپ سائٹس کےحاصل کردہ مواد سے سوال و جواب یاد کیے ہیں یا نہیں۔ ٹیسٹ کو چھاپنے میں خاص حکمتِ عملی کا استعمال کیاجاتا ہے جو خصوصی طور پر نقل کو پکڑنے کے لیے ترتیب دی ہوئی ہوتی ہیں۔ مثلاً نقل کرنے والے ان سوالات کو حل کرنے میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ٹیسٹ میں زیادہ عرصے سے ہوتے ہیں جن میں وہ اچھے نمبر لے سکتے ہیں جبکہ نئے سوالات حل کرنے میں ان کی رفتار نسبتاً کافی دھیمی ہوتی ہے اور وہ ان میں کافی خراب نمبر لے سکتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ آئی ٹی سرٹیفکیشن امتحانات ’ٹراجن ہارس‘ سوالات کا استعمال کرتے ہوئے جوابی شیٹ میں دانستہ غلط جواب شامل کرتے ہیں۔ یہ سوالات امیدوار کے حاصل کردہ نمبروں میں شامل نہیں ہوتے۔ جب ٹیسٹ دینےوالا ایسے سوالات کے جوابات دیتا ہے جن کے غلط جواب درج ہوتے ہیں تویہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس نے چوری شدہ معلومات استعمال کی ہے اس طرح اس کا ٹیسٹ خود بہ خود منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ رزلٹ کی فورینسک تجزیئے سے اس غیرفطری عمل کی نشاندہی کے ذریعے نقل کو پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ سرٹیفکیشن پروگرامز اس طرح اور بھی کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے امتحانی پرچوں میں سوالات کی ترتیب بدل دینا، MCQs میں جوابات کی ترتیب بدل دینا، مختلف امتحانی پرچہ جات سے سولات کو اکھٹا کرنا اور ان میں سے منتخب کرکے کئی مختلف ٹیسٹ بنانا اور ایک ہی امتحانی مرکز میں مختلف امیدواروں کو بالکل مختلف ورژن کا ٹیسٹ فراہم کرنا۔ کچھ سرٹیفکیشن ادارے MCQs کی جگہ کارکردگی کی بنیاد والے سوالات شامل کر رہے ہیں جنھیں چوری کرکے ذہن نشین کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس ’انحصاری آزمائش‘ میں ہر اگلا سوال امیدوار کے پچھلے دئیے گئے جواب پر منحصر ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹیسٹ دینے والا ٹیسٹ کے مواد کو قبل از جانتا ہے یا نہیں۔ اگر محسوس کیا جائے کہ امیدوار برین ڈمپس سے تیاری کرکے آیا ہے، امتحان ختم ہوجاتا ہے۔ CompTIA کے مطابق یہ امیدوار کو پرکھنے کا زیادہ بہتر طریقہ ہے ۔

سرٹیفکیشن ادارے اب ایسے انحصاری آزمائش کے سوالات میں مزید اضافہ کرتے جا رہے ہیں جو منظر نامے (سیناریو) پر مبنی ہوں۔ یہ سوالات امیدوار سے مصنوعی ماحول میں خاص کام ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ اس قسم کے سوالات چوں کہ یاد کرنا بہت مشکل ہوتے ہیں اسی لیے اس موقع پر امیدوار کونقل سے زیادہ مطالعہ کرنا آسان لگتا ہے۔ CompTIA کی ان کوششوں کا لبِّ لبّاب یہ ہے کہ یہ نقل کو مکمل طور پر نہیں روک سکتے اسی لیے یہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے مطالعے کے مقابلے میں نقل کرنے میں زیادہ پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔

نقل کو روکنے کے ان اقدامات کے ساتھ ادارے نقل کرنے والوں کی سزاؤں میں بھی اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ مائیکرو سافٹ کے سرٹیفکیشن امتحان میں اگر کوئی امید وار نقل کرتا پکڑا جائے یا دھوکے کا مرتکب قرار پائے تو اس پر مائیکروسافٹ کے ٹیسٹ دینے کی تا حیات پابندی عائد کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی پچھلے کیس کی جانچ پڑتال میں کوئی امیدوار قصوروار قرار پایا گیا تو مائیکروسافٹ اس امیدوار کو بے نقاب کرکے اس کی سرٹیفکیشن منسوخ کر دیتی ہے۔ اسی نقشِ قدم پر اب CompTIA بھی چلنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ان کے امتحان میں اگر کوئی امیدوار چوری کرتے پکڑا جاتا تھا تو وہ اس کا امتحان منسوخ کر کے اس پر ایک مخصوص عرصے کے لیے دوبارہ ٹیسٹ دینے پر پابندی عائد کر دیتی ہے۔CompTIA کا ارادہ مائیکروسافٹ کی طرح تا حیات پابندی عائد کرنے کا ہے۔اس کے علاوہ چونکہ اکثر آئی ٹی سرٹیفکیشنز کی چند سال بعد تجدید کروانی ہوتی ہے اور اس کے لئے ایک بار پھر امتحان دینا ہوتا ہے۔ مائیکروسافٹ سمیت دیگر تمام اہم آئی ٹی سرٹیفکیشنز کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ چونکہ دھوکہ دہی سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں کو اس پروگرام کے متعلق محدود علم ہوتا ہے، اس لئے وہ سرٹیفکیٹ کی یا تو تجدید کرواتے ہی نہیں یا پھر امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ آئی ٹی ماہرین کے مطابق انھیں حیرت ہوتی ہے کہ لوگ مطالعہ کرنے کے بجائے نقل اور فریب کاری کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور بے شمار سنگین خطرات مول لیتے ہیں۔ ایک ایمانداری سے خالصتاً حاصل کی گئی آئی ٹی سرٹیفکیشن عمر بھر کے لیےخالص فائدہ دیتی ہے۔ جبکہ نقل و فریب صرف سرٹیفکیشن کی ساکھ کو ہی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ یہ امیدوار کے مستقبل کو بھی تاریک کر سکتا ہے۔

mcpآیان قریشیامتحانایم سی پیسرٹی فکیشنعارفہ کریممائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنلمائیکروسافٹ سرٹیفکیشننقل