ملیریا کے خلاف جنگ، مچھروں کے سنگ

سائنسدانوں نے ملیریا کے خلاف لڑنے کے لیے مچھروں ہی کی افزائش کا ایک طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

آج کے دور کا انسان سائنس کی مدد سے کئی وبائی امراض پر خاطر خواہ قابو پا چکا ہے۔ لیکن زمانہ قدیم سے چلی آ رہی بیماری "ملیریا” اکیسویں صدی میں بھی سالانہ چار لاکھ سے زائد لوگوں کی اموات کا باعث ہے جن میں زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر افریقی بچے شامل ہیں۔

Image: REUTERS/Andreea Campeanu

حال ہی میں اس بیماری پر قابو پانے کے لیے دو جدید طریقہ ہائے کار دریافت کیے گئے ہیں۔ جن میں انوفیلس مچھر میں ملیریا بیماری پھیلانے والے طفیلیے جراثیم کے خلاف قوت مدافعت کو طاقتور بنایا جاتا ہے۔ یہ طفیلیے جراثیم حشرات میں موجود ہوتے ہیں۔ اور مادہ مچھر کے کاٹنے سے انسانی خون میں منتقل ہو کر بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

بلوم برگ اسکول میں قائم ملیریا سے بچاؤ کے تحقیقی ادارے سے وابسطہ ٹیم نے ایک ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو ملیریا پھیلانے والے مچھرروں میں لمبے عرصہ تک کے لیے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے اس بیکٹیریا میں اس طرح کی جینیاتی ترمیم کی ہے کہ یہ مچھروں میں موجود ملیریا پھیلانے والے طفیلیوں کی نشونماء کو مکمل طور پر بند کر کے اسے انسانوں میں منتقل ہونے سے روکتے ہیں۔

Image: World Health Organisation

ایک اور تحقیقاتی ٹیم نے ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے امنیاتی نظام میں اس طرح کی جینیاتی تبدیلیاں کی ہیں کہ وہ نا صرف ملیریائی طفیلیوں کو ختم کریں گے بلکہ اپنے جیسے مچھروں کی تیزی سے افزائش کریں گے۔ تا کہ اس خاندان کے پھیلاؤ کو زیادہ سے زیادہ بڑھا کر ملیریا کے خلاف وضع کردہ مچھروں کی بہت بڑی کھیپ تیار کی جا سکے۔

ابتدائی طور پر ان جینیاتی سطح پر ترمیم شدہ مچھروں کو جنگلی مچھروں کے مساکن میں چھوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جہاں وہ تیزی کے ساتھ اپنی آبادی میں اضافہ کریں گے اور ملیریا جیسی موذی مرض کو انسانوں میں منتقل ہونے سے روکیں گے۔

گویا ہم کہ سکتے ہیں کہ مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی تباہ کن بیماری ملیریا کے خلاف لڑنے کے لیے مچھروں کو ہی استعمال کیا جائے گا۔ اور اب ملیریا کے خلاف جنگ میں خود مچھر ہی انسان کے شانہ بشانہ کام کریں گے۔

بیکٹیریامچھرملیریاموذی مرض