نوبیل انعام، ٹیکنالوجی کے ماہرین کو کیوں نہیں ملتا؟

دنیا کی توجہ اِس وقت نوبیل انعام پر مرکوز ہے، لیکن کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ نوبیل انعام میں کسی چیز کی کمی ہے؟ جی ہاں! ٹیکنالوجی کے شعبے میں نوبیل انعام نہیں دیا جاتا۔

دراصل ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا جب سوئیڈش موجد الفریڈ نوبیل سے موسوم ان اعزازات کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ان کی وصیّت کے مطابق یہ انعام طبیعیات، کیمیا، طب اور امن کے شعبوں میں دیے جاتے ہیں اور یہی وہ بنیادی زمرے تھے، جن میں نوبیل انعام دیا جاتا ہے۔ 1968ء میں اس میں اقتصادیات کو بھی شامل کیا گیا۔

لیکن الفریڈ نوبیل کی وفات کو اب 118 سال گزر چکے ہیں اور دنیا بہت بدل چکی ہے۔ جب 1901ء میں پہلا نوبیل انعام دیا گیا تھا تو دنیا صنعتی عہد کے آخری دور میں تھی لیکن آج ہم انفارمیشن ایج میں جی رہے ہیں۔ انسان بہت تبدیل ہو چکا ہے، نصف سے زیادہ عالمی آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ موبائل فون انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی بن چکا ہے اور لگ بھگ 4 ارب افراد آن لائن ہو چکے ہیں۔ جدید دور کے یہ تمام انقلابات ٹیکنالوجی کی بدولت ہیں، وہی شعبہ جس کے ماہرین کو آج بھی نوبیل انعام نہیں دیا جاتا۔ یعنی جدید ترین گاڑیاں بنانے والوں، تاریک راتوں کو روشن کرنے والوں، ہوائی کی بلندیوں کو چھونے والوں، موبائل فون کے ذریعے فاصلوں کو سمیٹنے والوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کے ذخائر ترتیب دینے والوں کے لیے کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید تاریخ کی دو اہم شخصیات نکولا ٹیسلا اور تھامس ایڈیسن کو نوبیل انعام نہیں دیا گیا۔ طبیعیات کے زمرے سے چند ٹیکنالوجی ماہرین نے ضرور یہ اعزاز حاصل کیا لیکن اب تک دیے گئے 881 نوبیل انعامات میں ایسے انجینیئرز یا ٹیکنالوجی ماہرین کی تعداد صرف 28 ہے جو یہاں تک پہنچے۔

اس لیے یہ سوال بنتا ہے کہ صرف اصل پانچ زمروں میں نوبیل انعام کیوں؟

اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ جب الفریڈ نوبیل نے زمروں کا انتخاب کیا تھا تو ان کی نظر صرف بنیادی سائنس پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حیاتیات، ارضیات یا ٹیکنالوجی سے متعلقہ شعبوں انجینیئرنگ اور روبوٹکس ان کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ لیکن یہیں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ادب اور امن کہاں کہاں سے آ گئے؟ یا پھر اقتصادیات کا انعام کہاں سے پیدا ہوا؟ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ کئی اہم شعبوں سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا گیا۔

لیکن ۔۔۔۔ ٹیکنالوجی واحد شعبہ نہیں ہے جس سے یہ سلوک کیا گیا ہے۔ ریاضی کو بین الاقوامی زبان کہا جاتا ہے اور اسے بھی نوبیل کی جانب سے گھاس نہیں ڈالی گئی۔ دہائیوں سے ریاضی دان اس معاملے پر رو دھو رہے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہو رہی۔ نوبیل فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ مزید زمرے شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج ریاضی میں سب سے بڑا انعام ای ایم ایس پرائز کو سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح انجینئرنگ میں کوئین ایلزبیتھ پرائز ہے ، کمپیوٹر سائنس میں ٹیورنگ پرائز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے لیے ملینیئم پرائز ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی کی بھی نوبیل انعام جتنی شہرت حاصل نہیں۔

کاش کہ ٹیکنالوجی ابتداء ہی سے نوبیل انعام کے زمروں میں شامل ہوتا تو ہمیں ٹیسلا اور ایڈیسن کے علاوہ ہوائی جہاز بنانے والے رائٹ برادران، ہنری فورڈ، ٹیلی وژن کے موجد جان لوگی بیئرڈ، آئی فون بنانے والے اسٹیو جابس اور ورلڈ وائیڈ ویب کے بانی ٹم برنرز لی ضرور نوبیل انعام یافتہ نظر آتے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بٹ کوائن کا خالق نامعلوم شخص بھی اس انعام کا حقدار ٹھہرتا۔

ٹیکنالوجینوبیل انعام