سپر کمپیوٹنگ کی دنیا میں چین نے ایک بہت بڑا سنگ میل عبور کرلیا ہے اور دنیا کے 500 تیز ترین سپر کمپیوٹرز کی فہرست میں امریکا کو پیچھے چھوڑ کر سب سے اوپر آ گیا ہے۔
ٹاپ 500 سپر کمپیوٹر لسٹ میں اب چین کے 202 سسٹمز ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا کے پاس صرف 143 سپر کمپیوٹرز ہیں۔
25 سال قبل 500 تیز ترین سپر کمپیوٹرز کی اس درجہ بندی کے اجراء کے کے بعد سے اب تک یہ امریکا کی بدترین کارکردگی ہے، گو کہ اس کے باوجود امریکا دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جاپان 35 سپر کمپیوٹرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ جرمنی کا 20 سپر کمپیوٹرز کے ساتھ چوتھا نمبر ہے۔
ٹاپ 500 کے مطابق چین میں منظرنامہ بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ صرف چھ مہینے پہلے امریکا 169 سپر کمپیوٹرز کے ساتھ پہلے جبکہ چین 160 کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔
سپر کمپیوٹرز دراصل عام استعمال کے کمپیوٹرز کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے پروسیسنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بہت تیز رفتار ہوتے ہیں۔ انہیں موسم کی پیشنگوئی سے لے کر جوہری ہتھیاروں کی بناوٹ یہاں تک کہ خلائی سرگرمی کو سمجھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ انتہائی پیچیدہ کام کو بہت تیزی سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سپر کمپیوٹرز کی رفتار کو فی سیکنڈ فلوٹنگ پوائنٹس آپریشنز (floating points operations) کے ذریعے ناپا جاتا ہے جنہیں مختصراً فلاپس (flops) کہتے ہیں۔ ایک پیٹافلاپ (petaflop) کا مطلب ہوتا ہے ایک ہزار ٹریلین فلاپس۔
اس وقت دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر چین کا سن وے ٹیہولائٹ ہے جو 93 پیٹافلاپ کی رفتار حاصل کر سکتا ہے۔ یہ دنیا کے دوسرے تیز ترین سپر کمپیوٹر کے مقابلے میں دوگنی سے بھی زیادہ رفتار ہے۔ دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹرز میں امریکا کا نمبر پانچواں ہے جس کا سپر کمپیوٹر ٹائٹن 17.6 پیٹافلاپس کی رفتار رکھتا ہے۔