لائٹ فیڈیلیٹی یعنی لائی فائی جو کہ وائی فائی کا متبادل ہے میں ایل ای ڈی بلب کی روشنی کے ذریعے ڈیٹا ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور اس کی رفتار وائی فائی میں استعمال ہونے والی ریڈیو ویوز سے کئی گنا تیز ہوتی ہے۔
لائی فائی کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ چینی سائنسدانوں نے لائی فائی کمیونی کیشن چینلز تشکیل دینے میں اہم کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اس وقت کئی تحقیقاتی ٹیمیز رئیر زمینی عناصر کو لائی فائی سے ڈیٹا ٹرانسمیٹ کرنے کے لیے استعمال کررہی ہیں مگر چائنا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے اس کا متبادل ایف سی ڈی ایس، یا ایک فلورسینٹ کاربن نانو میٹریل تیار کیا ہے جو کہ اس ٹیکنالوجی کے لیے زیادہ محفوظ ہے اور اس کی رفتار کو بھی بڑھا دیتا ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے محققین کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر ماہرین بھی اس پر کام کررہے ہیں، مگر ہم پہلی ٹیم ہیں جنھوں نے سستے خام مال جیسے یوریا کو اس عمل میں کامیابی سے استعمال کیا۔
رئیر زمینی عناصر کی زندگی کی مدت زیادہ ہوتی ہے جو کہ لائی فائی ٹرانسمیشن کی رفتار میں کمی کا باعث بنتی ہے، مگر ایف سی ڈیز سے تیز ترین ڈیٹا ٹرانسمیشن اسپیڈ کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
یہ نیا میٹریل ایسی روشنی خارج کرتا ہے جو کہ انسانی آنکھ کو بھی نظر آتی ہے جو کہ اہم پیشرفت قرار دی جارہی ہے۔
لائی فائی کو حقیقت کا روپ دینے میں یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق لائی فائی کی رفتار 50 گیگا بائٹس فی سیکنڈ تک ہو سکتی ہے۔ اگر اس اندازے کو دیکھا جائے تو یہ ٹیکنالوجی ایک ناقابل یقین افسانہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس حالیہ تحقیق سے یہ ثآبت ہوتا ہے کہ لائی فائی ایک حقیقت ہے جو کہ اگلے پانچ سے چھ سالوں میں سب کے سامنے موجود ہو گی۔