محققین نے خبردار کیا ہے کہ گوگل نے لوگوں کی ایسی نسل تیار کر دی ہے جو اتنی ذہین نہیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سوالات کے جوابات کے لیے گوگل اور دوسرے سرچ انجنوں پر انحصار ہمارے اپنے علم یعنی کہ ہم کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے کو متاثر کرتا ہے۔ اگر ہم جوابات کو جانتے بھی ہیں مگر انٹرنیٹ کے استعمال سے کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔جوابات کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال لوگوں کو اتنا ذہین ہونے کا احساس دلاتا ہے جتنا وہ نہیں ہوتے۔
انٹرنیٹ علم کا سمندرہے جہاں کوئی بھی سوال پوچھنے پر ہزاروں جوابات چند لمحوں میں آپ کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں۔ یعنی پوری دنیا کی معلومات آپ کی انگلیوں کی پہنچ میں ہے۔ یہ تمام معلومات جو کسی نعمت سے کم نہیں، نے کئی مسائل بھی پیدا کردیئے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو شکایت ہے کہ ان کے مریض زیادہ ہوشیار بنتے ہوئے ویب ایم ڈی جیسی ویب سائٹس سے اپنی بیماریوں کی خود تشخیص کرتے ہیں اور غیر ضروری ادویات و علاج معالجے کی وجہ سے مزید بیمار ہوجاتے ہیں۔
معلومات کا اس قدر زیادہ اور آسان دستیابی آپ کے اپنے علم کے لیے خطرناک ہے۔ اس طرح لوگوں کو جب خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے تو وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود کتنا جانتے ہیں اور انٹرنیٹ پر کتنا بھروسا کرتے ہیں۔امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے محققین نے کچھ تجربات کے نتائج شائع کیے ہیں جن کے مطابق ایسے لوگ جو معلومات کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں وہ خود کو ایسے لوگوں سے زیادہ ذہین و فطین سمجھتے ہیں جو انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے۔ ایک بات جس نے ماہرین کو بھی حیران کر دیا کہ اگر ایسے افراد اپنے سوالوں کا جواب انٹرنیٹ پر نہ پائیں تب بھی اپنی اوقات پر نہیں آتے بلکہ انہیں بدستور یہی یقین ہوتا ہے کہ اُن سے زیادہ کوئی ذہین نہیں۔ ایسے افراد کو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اُن کا دماغ انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے والوں نسبت زیادہ متحرک ہے۔
ان تجربات کے لیے ماہرین نے چند سو افراد کو آن لائن منتخب کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مختلف تجربات کئے گے۔ ان افراد کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک تجربے میں دونوں گروپ کے ممبران سے سوال کیا گیا کہ زِپ (zipper) کیسے کام کرتی ہے؟ انٹرنیٹ کے استعمال کے عادی گروپ میں شامل ممبران کو انٹرنیٹ سے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے کہا گیا۔ جبکہ دوسرے گروپ کے ممبران کو زِپ کے کام کرنے کا طریقہ پڑھنے کے لئے دیا گیا۔ اس طریقہ انٹرنیٹ پر زِپ کے کام کرنے کا طریقہ کار بتانے والے ویب پیجز سے ہی کاپی کیا گیا تھا۔
اس کے بعد تجربے میں شامل تمام ممبران سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دوسرے سوالات جو زِپ سے متعلق نہیں تھے، مثلاً ابر آلود راتیں گرم کیوں ہوتی ہیں؟ وغیرہ کا جواب جانتے ہیں؟ انہیں جواب نہیں بلکہ صرف یہ بتانا تھا کہ انہیں اس کا جواب پتا ہے کہ نہیں۔ انٹرنیٹ پر تلاش کرکے جواب حاصل کرنے والے ممبران تقریباً ہر سوال کے جواب میں یہ کہتے رہے کہ ہاں، انہیں اس سوال کا جواب پتا ہے۔
ایک اور تجربے میں انٹرنیٹ سرچنگ کے عادی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دماغ زیادہ فعال ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کے دماغ میں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ معلومات بھری ہے۔ بعد کے تجربات نے ان کے تمام دعوؤں کو غلط ثابت کیا۔
اس ریسرچ کو انجام دینے والے محققین نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ کوئی کتاب پڑھنے یا کسی ماہر سےگفتگو کے بعد انٹرنیٹ پر تلاش کرنے کے بجائے خود تحقیق کریں۔ اگر آپ کسی سوال کا جواب نہیں جانتے تو اس بات کا ادراک آپ سے بہتر کوئی نہیں رکھتا۔ لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے آپ کیا جانتے ہیں اور آپ کیا سوچتے ہیں کہ آپ کیا کیا جانتے ہیں کے درمیان فرق ختم ہوجاتا جارہا ہے۔ اس فرق کو مٹانے میں اسمارٹ فونز کا بڑا ہاتھ ہے جس نے انٹرنیٹ پر تلاش کرنے کا عمل انتہائی سہل کردیا ہے۔
(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ مئی2015 میں شائع ہوئی)
سرچ انجن ایک سپر اسٹور کی مانند ہے۔ ایک بندہ اسٹور میں داخل ہوتا ہے اور چند منٹ میں بنیادی اور ضروری نوعیت کی چیزیں خرید کر باہر نکل آتا ہے۔ دوسرا شخص داخل ہوتا ہے تو دو گھنٹے کے بعد پچاس قسم کی چیزیں شاپنگ کارٹ میں لے کر باہر نکلتا ہے۔ اس میں سے بہت سی چیزیں مکمل استعمال میں نہیں آتیں اور انہیں ہفتے کے بعد کوڑے دان میں پھینکنا پڑتا ہے۔
لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ سرچ انجنز نے بہت سے نیم حکیم پیدا کر دیے ہیں۔