فیس بک پر گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے پاکستان میں اعلیٰ سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ کو فوری طور پر ایسے مواد کو روکنے کی ہدایت کی ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ گستاخانہ مواد کو سوشل میڈیا سے ہٹانے اور مستقل اس کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ تمام ادارے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد ڈالنے والے افراد کا سراغ لگا کر انہیں کڑی سے کڑی سزائیں دلوائیں۔ ناموس رسالتﷺ کے بارے میں مسلمانوں کی حساسیت کا احترام کیا جانا چاہئیے۔ حضرت محمد ﷺ پوری انسانیت کے محسن ہیں اور حضرت محمد ﷺسے محبت ہر مسلمان کا قیمتی سرمایہ ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے احکامات اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس کے بعد سامنے آئے ہیں جن میں عدالت نے سوشل میڈیا پر اسلام مخالف سرگرمیوں پر سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے، متعلقہ اداروں سے فی الفور اس کا سد باب کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ اگر گستاخانہ مواد کا سدباب نہیں کیا جاتا تو وہ سوشل میڈیا سائٹ مکمل بند کرنے کے احکامات بھی دے سکتی ہے۔
وزیر اعظم نے عدالتی گائیڈ لائن کے مطابق ضروری اقدامات فوری طور پر اٹھانے کے لئے محکمہ داخلہ کو احکامات جاری کیے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ وزیرداخلہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی بندش سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر آگاہ کریں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حضرت محمد ﷺ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی بھی ناقابل معافی ہے اور اس سے متعلق کسی بھی سطح پر کوئی گستاخی برداشت نہیں کی جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ گستاخانہ مواد کی روک تھام کےلیے فیس بک اُن سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔ حال ہی میں سائبر کرائم سیل کی جانب سے فیس بک کو مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی گرفتاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیس بک پاکستانی اداروں کے ساتھ ڈیٹا شیئر کررہا ہے۔ وزیر داخلہ کی ہدایت پر ایف آئی اے کی ٹیم کی جانب سے فیس بک کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تھا اور انہیں اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا گیا۔ اس رابطے کے بعد فیس بک انتظامیہ اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے پر رضامند ہوگئی ہے۔ فیس بک انتظامیہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ گستاخانہ مواد سے متعلق پاکستان کے تحفظات سے آگاہ ہیں۔ باہمی مشاورت اور بات چیت سے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ فیس بک نے اس سلسلے میں ایک فوکل پرسن بھی نامزد کیا ہے جو اس معاملے میں فیس بک انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوگا۔
دوسری جانب حکومت گستاخانہ مواد کی روک تھام کے ساتھ ساتھ سائبر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھی بھر پور کاروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ایک قومی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومتی حلقے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سوشل میڈیا پر وزیراعظم کو تنقید کا نشائے بنائے جانے کے باعث سخت اقدام اٹھانے پر غور کر رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 126 میں شائع ہوئی
اگر آپ یہ اور اس جیسی درجنوں معلوماتی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں تو گھر بیٹھے کمپیوٹنگ کا تازہ شمارہ حاصل کریں۔