غیر قانونی جاسوسی سے نمٹنے کے ایک نئی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن

بہت سے صارفین اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتے کہ اپنے اسمارٹ فون میں انہوں نے جو ایپلی کیشن انسٹال کی ہے، اسے کس کس بات کی اجازت (permission) حاصل ہے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر ایپلی کیشن بہت کچھ ایسا کر جاتی ہیں جو علم ہونے پر ہمیں بالکل اچھا نہ لگے۔ نیز، ایپلی کیشن ڈیویلپرز کی غلطیوں کے وجہ سے صارفین کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ صارف کی موجودگی کی جگہ (لوکیشن) کے بارے میں معلومات کا ہے۔ اینڈروئیڈ اسمارٹ فونز میں چلنے والی ایپلی کیشنز جب صارف کی لوکیشن معلوم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اسکرین کے اوپری حصے پر ایک چھوٹا سا آئی کن ظاہر ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ آئی کن بیشتر صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔
اسی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے یونی ورسٹی آف رٹ گرز کے ریسرچرز کی ایک ٹیم نے اچھوتی اینڈروئیڈ ایپلی کیشن تشکیل دی ہے۔ اس ایپلی کیشن کی موجودگی میں اگر صارف کے اسمارٹ فون میں کوئی دوسری ایپلی کیشن صارف کے محل وقوع کی معلومات کو دیکھنا چاہے گی تو یہ ایپلی کیشن فوراً سے پیشتر خبردار کر دے گی۔ صارف کو اس کی اطلاع کسی آئی کن کی بجائے پوری اسکرین پر ظاہر ہونے والے ایک پیغام سے دی جائے گی جسے نظر انداز کرنا صارف کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے ڈیویلپرز کے مطابق تقریباً دو ماہ بعد یہ ایپلی کیشن باقاعدہ گوگل پلے اسٹور پر ڈائون لوڈنگ کے لئے دستیاب ہوگی۔
اس سے پیشتر ایسا معلوم کرنا آسان نہیں تھا اور اس کے لیے اینڈروئیڈ کو روٹ (root)کرنا پڑتا تھا۔ مگر اب بھلا ہو امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کا کہ جس کے طریقہ واردات سے ہمیں سنوڈن صاحب نے متعارف کرا دیا ہے اور انہی کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی نئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں، ان تبدیلیوں سے عام آدمی بھی مستفید ہو رہا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ایپلی کیشن ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت اکثر ایپلی کیشنز جن میں ویڈیو گیمز، ڈکشنری یا معمولی نوعیت کے کام انجام دینے والی ایپلی کیشنز خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی صارف کے محل وقوع کی معلومات جمع کررہی ہوتی ہیں۔ اگرچہ اینڈروئیڈ محل و قوع کی معلومات ایپلی کیشن کو فراہم کرتے دوران ایک آئی کن ضرور ظاہر کرتا ہے مگر ریسرچ ٹیم کے ہی انجام دیئے ہوئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ صارفین میں سے بیشتر اس آئی کن کو نوٹس ہی نہیں کرتے یا پھر اس کا مطلب ہی نہیں جانتے۔ صارفین کی اسی عدم توجہ کی وجہ سے نیشنل سکیوریٹی ایجنسی جیسی شاطر ایجنسیاں صارفین کے محل وقوع کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔ حال ہی میں ایک نیا دعویٰ بھی منظر عام پر آیا ہے کہ NSA اینگری برڈ اور گوگل میپس کے ذریعے بھی صارفین کی جاسوسی کرتی ہے۔
اس نئی ایپلی کیشن کے ڈویلپرز نے بتایا ہے کہ جن لوگوںنے اسے ابتدائی طور پر استعمال کیا ، وہ اس کے نتائج دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بہت سے گیمز اور ڈکشنری ایپلی کیشن نے اُن کے محل وقوع سے باخبر ہونا چاہا تھا۔ان ایپلی کیشنز کو چلنے یا اپنا کام انجام دینے کے لئے قطعی طور پر صارف کی لوکیشن جاننے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایسا کررہی تھیں۔ اکثر معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ موبائل ایپلی کیشن سے محل وقوع معلوم کرنے کا مقصد صارفین کو اُن کے محل وقوع کے اعتبار سے اشتہارات دکھانا تھا۔ مگر ایپلی کیشنز کی مدد سے حاصل کی گئی معلومات اکثر بے حساب دوسرے اشتہاربازوں تک پہنچ جاتی ہے ، جو صارف کے لیے درد سر بن جاتی ہے۔
گوگل اینڈروئیڈ کسی ایپلی کیشن کو دوسری ایپلی کیشن کی معلومات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے زیر بحث ایپلی کیشن کو بنانے کے لئے ریسرچ ٹیم نے گوگل کی ہی فراہم کردہ APIs کو استعمال کیا ہے۔

 

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ فروری 2014 میں شائع ہوئی)