کمپیوٹر گرافکس کے حوالے سے شہرت یافتہ کمپنی Nvidia کے ریسرچرز نے ایک سیدھی سادھی لیکن انوکھی تکنیک استعمال کرکے مارکیٹ میں عام دستیاب اور سستی ایل سی ڈی اسکرینز کی ریزولوشن کو چار گنا تک بہتر اور ریفریش ریٹ کو دو گنا تک تیز رفتار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
ہنتے ہیں۔ ریسرچر نے بھی تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے آکلس رفٹ جیسی پروٹو ٹائپ ڈیوائس بنائی اور اس میں اپنی دریافت کردہ تکنیک سے بنائی ہوئی ڈسپلے نصب کی۔
اس تکنیک کے پیچھے کارفرما سائنس یہ ہے کہ ہر ایل سی ڈی میں پکسلز بذات خود شفاف ہوتے ہیں۔ لیکن انکے درمیان موجود فاصلہ جس میں تاریں اور سرکٹ موجود ہوتے ہیں، شفاف نہیں ہوتا۔ این ویڈیا کے ریسرچرز نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے ایک ایل سی ڈی کے اوپر دوسری ایل سی ڈی کو اس طرح رکھا کہ اوپر رکھی ایل سی ڈی کا ہر پکسل نیچے والی ایل سی ڈی کے چار پکسلز کے اوپر موجود رہے۔ یوں اوپر والی ایل سی ڈی کا ہر پکسل چار پکسلز کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ کام یہیں ختم نہیں ہوتا، ایل سی ڈیز کے اس سینڈوچ کو کام کرنے کے لئے ایک خاص سافٹ ویئر بھی درکار ہوتا ہے۔ چونکہ این ویڈیا کے ماہرین اس کام میں پہلے ہی زبردست مہارت رکھتے ہیں، اس لئے انہیں اس نئی ایل سی ڈی کا ڈرائیو یا کنٹرول سافٹ ویئر بنانے میں کوئی مشکل نہیں پیش آئی۔
اگر اسcascaded ڈسپلے کے استعمال کی بات کی جائے تو اسے ہیڈ ماؤنٹڈ ڈسپلے (head-mounted displays) مثلاً Oculus Rift وغیرہ کے لئے آئیڈیل کہا جاسکتاہے۔ رِفٹ کی قیمت خاصی کم ہے جس کی ایک وجہ اس میں سستی اور کم ریزولوشن کی ڈسپلے کا استعمال کیا جانا ہے۔ چونکہ اس کی ڈسپلے آنکھوں کے بے حد قریب ہوتی ہے اس لئے کم ریزولوشن کی وجہ سے ڈسپلے میں موجود پکسلز الگ الگ دیکھے جاسکتے ہیں۔ نتیجہ کٹی پھٹی ڈسپلے کی صورت میں نکلتا ہے۔ کیس کیڈڈ ڈسپلے اگر تجارتی پیمانے پر استعمال کے قابل بنا لی جاتی ہے تو یہ ہیڈ ماؤنٹڈ ڈسپلے کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ کئے بغیر ان کی ریزولوشن میں زبردست اضافہ کرسکتی ہے۔
این ویڈیا کی یہ تکنیک زبردست تو ہے لیکن اس میں ایک خرابی بھی موجو دہے۔ دو ایل سی ڈیز کو ایک دوسرے کے اوپر رکھنے سے ان کی چمک دمک یا brightness خاصی کم ہوجاتی ہے۔ تاہم brightness اس وقت اہم ہے جب اسے لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فونز میں استعمال کیا جانا ہو۔ چونکہ اس کا بنیادی استعمال HMD میں کیا جانا جہاں ڈسپلے آنکھ کے بے حد قریب ہوتی ہے، اس لئے brightness کا مسئلہ غیر اہم ہوجاتا ہے۔ چند دیگر تکنیکی مسائل کی وجہ سے بھی اس ڈسپلے کا استعمال HMD تک ہی محدود رہے گا۔