ایم او او سی یعنی ماسیوو اوپن آن لائن کورسز تدریس کا ایسا ذریعہ ہے جس کا مقصد لامحدود طلبہ اور عام افراد کو کسی رکاوٹ کے بغیر تعلیم فراہم کرنا ہے۔ آئیے اس کی مکمل تفصیل جانتے ہیں۔
اوپن لرننگ تعلیمی میدان میں ایک تحریک ہے جو70ء کی دہائی میں منظر عام پر آئی۔ یہ تحریک ایسی سرگرمیوں پر مبنی ہوتی ہے جو تعلیمی نظام کے اندر سیکھنے کے مواقعوں میں اضافہ کرتی ہیں یا باقاعدہ تعلیمی نظام سے بڑھ کر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ اوپن لرننگ کی کوئی متفقہ اور جامع تعریف موجود نہیں ہے تاہم عمومی طور پر اس کا مرکزی رجحان سیکھنے والے کی ضروریات اور سیکھنے والے کی سمجھ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ایک تحقیقی اور تعلیمی اشاعتی ادارے ٹیلر اینڈ فرانسس کی جانب سے شائع کردہ تحقیقی جرنل Teaching at a distance،جس کا نام 1986ء میں بدل کر اوپن لرننگ رکھا گیا تھا، اس شمارے کے ایک مضمون میں اوپن لرننگ کی مختلف تعریفوں میں سے کچھ متفقہ نکات اخذ کیے گئے ہیں۔
(1)اوپن لرننگ ادارے کے مرکز( institutional centered) کے بجائے سیکھنے والے کا مرکز (learner centered )ہے۔
(2)اوپن لرننگ وسیع پیمانے کی تدریسی حکمتِ عملیوں کے استعمال کو لاگو کرتی ہے۔
(3)اوپن لرننگ سیکھنے کے عمل کی پابندیوں (جیسے عمر، حاضری وغیرہ) کو ختم کرتی ہے خصوصاً وہ رکاوٹیں جو روایتی تعلیم و تربیت میں موجود ہوتی ہیں۔
اوپن لرننگ کو ڈسٹنس لرننگ ( فاصلاتی تعلیم ) اور ای لرننگ کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے اگرچہ ان تینوں قسم کے طریقہ تعلیم میں فرق پایا جاتا ہے۔ کامن ویلتھ آرگنائزیشن کی شاخ کامن ویلتھ اوپن لرننگ/ڈسٹنس لرننگ نے اوپن اور ڈسٹنس لرننگ طریقہ تعلیم کی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے۔
(1) استاد اور طلبہ کا ٹائم یا جگہ کے لحاظ سے علیحدہ ہونا یا دونوں ٹائم اور جگہ کے لحاظ سے علیحدہ ہونا۔
(2)تسلیم شدہ تعلیم: یعنی فراہم کردہ تعلیم کسی ادارے یا ایجنسی سے تسلیم شدہ یا تصدیق شدہ ہو۔
(3) مختلف میڈیا کورس وئیر کا استعمال: بشمول پرنٹ میڈیا، ریڈیو و ٹیلی وژن براڈ کاسٹ ، ویڈیو اور آڈیو کیسٹس، کمپیوٹر کے ذریعے لرننگ اور ٹیلی کمیونی کیشن۔
ڈیجیٹل دور سے قبل فاصلاتی تعلیم خط و کتابت کے تبادلے کے ذریعے کورسز ، براڈ کاسٹ کورسز اور ای لرننگ کی ابتدائی شکل میں ظاہر ہوئی۔ پاکستان میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہے۔ 1890ء کی دہائی میں پیشہ ورانہ موضوعات پر ڈاک کے ذریعے سول سروسز ٹیسٹ اور شارٹ ہینڈ رائٹنگ وغیرہ جیسے کورسز سیلز مین کے ذریعے گھر گھر جا کر پیش کیے جاتے تھے۔ 1920ء کی دہائی میں 4ملین سے زائد امریکی ڈاک کے ذریعے کورسز میں رجسٹرڈ تھے اور یہ تعداد اس وقت روایتی کالج میں حاضر ہونے والے طلبہ سے کہیں زیادہ تھی، یہ کورسز خصوصی طور پر سیکڑوں نوکریوں و دیگر عملی کاموں کے موضوعات پر مشتمل تھے۔ البتہ ان کے تکمیل کی شرح تین فی صد سے بھی کم تھی۔
براڈ کاسٹ ریڈیو 1920ء کی دہائی میں نیا تھا اور اس کے پروگرام تمام سامعین کے لیے مفت تھے۔ 1922ء میں نیویارک ، شہری ضروریات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے مختلف کورسز مفت پڑھانے کے لیے اپنا ذاتی ریڈیو اسٹیشن چلا رہا تھا۔ اس کی دوسرے تعلیمی اداروں بشمول کولمبیا، ہارورڈ، ریاست کینساس، ریاست اوہایو، نیویارک یونی ورسٹی، وسکونسن اور اوٹاہ وغیرہ نے تقلید کی۔ طلبہ نصابی کتب پڑھتے اور لیکچر سنتے جب کہ ٹیسٹ کے جواب خطوط کے ذریعے بھیجتے تھے۔ اس وقت کے ایک صحافی نے سوال اٹھایا تھا کہ ’’کیا ریڈیو تعلیم کا اہم جُز بن جائے گا؟ کیا روایتی کمرئہ جماعت ختم ہونے والے ہیں؟ اور مستقبل میں بچوں کو یوں تعلیم دی جا سکے گی جب وہ گھر میں بیٹھے ہوں گے، حتیٰ کہ جب وہ دستی ریڈیو کے ساتھ سڑک پر چل رہے ہوں گے‘‘
اس وقت کورسز کے تکمیل کی شرح بہت کم تھی اور نقل کا سراغ لگانا مشکل تھا اور ٹیوشن فیس جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ 1940ء کی دہائی میں امریکا سے ریڈیو کورسز تقریباً ختم ہو گئے تھے۔ 1951ء میں آسٹریلیا اسکول آف دی ائیر نے دور دراز کے علاقوں کے طلبہ کو کمرئہ جماعت سے منسلک کرنے کے لیے دو سمتی شارٹ ویو ریڈیو کورسز کا آغاز کیا جس میں طلبہ ریڈیو کے ذریعے انسٹرکٹر سے سوال بھی کر سکتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران لاکھوں فوجی ملازمین کو تربیت دینے کے لیے ویڈیو فلمیں لیکچرز کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں جس میں جنگی آلات کا عملی استعمال سکھایا جاتا تھا۔ 1940 ء کی دہائی کے آخر میں یونی ورسٹی آف لوئس وائل کے ساتھ اس کی تقلید کرنے والی دیگر یونی ورسٹیاں ٹیلی وژن کے ذریعے کورسز پیش کر رہی تھیں۔ 1980ء کے عشرے میں کئی یونی ورسٹیوں میں کلاس رومز کو کلوز سرکٹس ویڈیو کے ذریعے دور دراز کے کیمپس سے منسلک کیا جاتا تھا۔ CBS ٹی وی کی سیریز سن رائز سیمسٹر جو 1950ء سے 1980ء کی دہائی میں نشر ہوئی ، نیویارک یونی ورسٹی کے کورس کریڈٹ بھی پیش کرتی تھی۔
1994ء میں یونی ورسٹی آف پنسلوانیا کے جیمز جے او ڈونیل نے gopher (انٹرنیٹ پر لکھی گئی معلومات کا نیٹ ورک) اور ای میل کے ذریعے سب سے پہلے انٹرنیٹ پر کورس شروع کیا۔ یہ کورس عیسائی مذہب کی معلومات پر مشتمل تھا اور اس میں دنیا بھر سے 500 سے زائد طلبہ نے شرکت کی تھی۔
2003ء میں ہیلو چائنا پروگرام کا آغاز کیا گیا جو میڈیا کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوا جس میں ریڈیو ، ویب اور موبائل کے ذریعے ان 4 ملین چینی افراد کو کاروبار ی مضامین پڑھائے گئے جو بزنس ڈگری کے حصول کی تیاری کر رہے تھے۔یہ کورس ان تمام افراد کے لیے کھلا تھا جو ریڈیو یا انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے تھے۔
فاصلاتی تعلیم اور اوپن لرننگ اس طرح مختلف ادوار سے ہوتی ہوئی آج ہمارے اس دور میں پہنچ چکی ہے جب رابطے کے تمام جدید طریقے اور مواقع موجود ہیں لہٰذا ان ہی مواقعوں کو استعمال کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں افراد، کاروباری امکانات اور مستقبل کی ضروریات کو مدّ ِنظر رکھنے والے اداروںاور نت نئے تجربات کرنے والے باہمت اور مہم جو افراد نے نیٹ ورکنگ ، پروگرامنگ اور سوشل میڈیا کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیم کے ایک نئے نظام کو جنم دیا ہے جسے MOOC کہا جاتا ہے۔
Massive Open Online Course جس کا مخفف MOOCہے ، انٹرنیٹ کے ذریعے مفت فاصلاتی تعلیمی منصوبہ ہے جو جغرافیائی سطح پر پھیلے ہوئے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کی شمولیت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ ایم او او سی ایک آن لائن کورس ہے جس کا مقصد لامحدود طلبہ اور عام افراد کو کسی رکاوٹ کے بغیر تعلیم فراہم کرنا ہے۔ ایم او او سی کالج یا جامعہ میں پڑھائے جانے والے کورس کی شکل اور/یا طوالت میں ہو سکتا ہے یا غیر روایتی موضوع اور/یا طوالت میں کم ہو سکتا ہے۔ ایم او او سی سند یافتہ اور/یا کریڈٹ آور کورسز بھی پیش کر سکتا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر وہ تعلیم فراہم کرتا ہے جو مزید تعلیم روزگار یا سند کا حصول ممکن بناتی ہے۔ روایتی کورس مٹیرئیل مثلاً ویڈیو لیکچرز ، پڑھنے کے لیے مواد اور سوالات و آزمائشی مشقوں کے ساتھ ایم اوا و سی صارفین کے رابطے کے لیے فورم بھی فراہم کرتا ہے جو طلبہ اساتذہ اور تدریسی معاونین کے لیے ایک کمیونٹی قائم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ابتدائی ایم او او سی ایک تحریک اوپن ایجوکیشنل ریسورسز OER سے ظاہر ہوئی۔ لفظ ایم او او سی یونی ورسٹی آف پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کے ڈیو ک ورمئیر نے یونی ورسٹی آف مانی ٹوبا کے ایک پیش کردہ کورس connectivism and connective knowlwdgeـ کے لیے 2008ء میں متعارف کیا۔ اس میں یونی ورسٹی کے 25 فیس ادا کرنے والے طلبہ اور عوام سے 2300 مفت پڑھنے والے طلبہ نے حصّہ لیا جنھوں نے یہ کورس آن لائن پڑھا تھا۔ اس میں کورس مٹیرئیل کے لیے RSS فیڈ فراہم کی گئی تھی اور کئی مختلف مقامات پر شمولیت کے مواقع فراہم کیے گئے تھے جن میں ایک تعلیمی انتظامی نظام Moodle، بلاگ پوسٹ، سیکنڈ لائف اورئیل ٹائم آن لائن ملاقات شامل تھے۔
2011ء میں میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کا اوپن کورس وئیر کسی بھی یونی ورسٹی کی جانب سے فراہم کیے جانے والے ایم او سی ذرائع کا پہلا بڑا مجموعہ بن گیا۔ 2012ء میں ایم او سی کے فروغ کے لیے ایم آئی ٹی اور ہارورڈ کی مشترکہ کوششوں سے EdX کے ابتدائی کورسز کا آغاز ہوا۔ اگست 2013ء میں آکسفورڈ آن لائن ڈکشنری نے ایم او او سی لفظ شامل کر لیا۔
فاصلاتی تعلیم اور پاکستان:
اگرچہ پاکستان میں کئی سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں سے فاصلاتی تعلیم کا عمل جاری ہے۔ تاہم سوائے ورچوئل یونی ورسٹی کے کوئی بھی جامعہ یا ادارہ ایم او او سی اوپن کورس وئیر یااس سے ملتا جلتاکوئی مفت پلیٹ فارم قائم نہیں کر پایا ہے۔ پاکستان میں فاصلاتی تعلیم کی تاریخ بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں۔1980 ء اور1990ء کی دہائی میں افراد ٹیکنیکل و دیگر کورسز مثلاً ٹی وی، ریڈیو،موٹر مکینک، انگریزی، سلائی کڑھائی، کھانا پکانا وغیرہ سیکھنے کے لیے اشاعتی و دیگرنجی تعلیمی اداروں کو خط و کتابت کیا کرتے تھے اور ڈاک سے انھیں پڑھنے کا مٹیرئیل اور آڈیو لیکچرز کیسٹیں فراہم کی جاتی تھیں۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سے مخصوص اوقات میں انگریزی، ریاضی و سائنس، ادب، فلسفہ، تاریخ اور عربی و قرآنی تعلیم سکھانے کے پروگرام پیش کیے جاتے تھے جن میں سے کچھ اب بھی جاری ہیں۔
1974ء میں قائم ہونے والی ایشیا کی سب سے پہلی اوپن یونی ورسٹی علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد تھی۔ پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں علامہ اقبال یونی ورسٹی کے کردار کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس یونی ورسٹی کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی بڑی یونی ورسٹیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں 2010ء میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد 1,121,038 تھی جب کہ 2011ء میں یہ تعداد 3,305,948 تک جا پہنچی تھی۔ یہاں میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی اور تعلیم ِ بالغان کے کورسز بھی موجود ہیں۔ تاہم یہ سب کورسز مفت نہیں ہیںاور ان میں سے سب ہی کورسز فاصلاتی تعلیم کی تعریف پر پورا نہیں اترتے، یعنی کچھ کورسز کے لیے طلبہ کو علاقائی کیمپس جا کر حاضرِجماعت ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں کے طلبہ کی ضروریات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے کورس مٹیرئیل باقاعدہ کتابوں کی صورت میں ڈاک کی ذریعے فراہم کیا جا تا ہے۔ یونی ورسٹی کی جانب سے ایم او او سی کی طرز کا کوئی اقدام اب تک دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
2002ء میں ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیم فراہم کرنے والا پاکستان کا پہلا ادارہ ورچوئل یونی ورسٹی کے نام سے قائم ہوا۔ جس کا اہم مقصد فاصلاتی تعلیم کے ذریعے انفارمیشن اور کمیونی کیشن سائنس کا پاکستان میں فروغ ہے۔ ورچوئل یونی ورسٹی نے ٹی وی کے ذریعے ہر خاص و عام میں تعلیم پہچانے کے لیے ایک انتہائی اہم اور قابلِ تحسین کا م سر انجام دیا جس کے ذریعے طلبہ اور حتیٰ کہ عام ٹی وی صارفین بھی کیبل ٹی وی کے ذریعے یونی ورسٹی کے چار چینلز VTV1 ،VTV2 ،VTV3اورVTV4 کے ذریعے لیکچرز و دیگر دستاویزی و علمی پروگرام دیکھ سکتے ہیں، نیز یہ لیکچرز یونی ورسٹی کی اپنی ویب سائٹ کے علاوہ یو ٹیوب پر بھی ہر خاص و عام کے لیے موجود ہیں۔ ورچوئل یونی ورسٹی میں تعلیم مفت نہیں ہے تاہم ایم آئی ٹی اوپن کورس وئیر کی طرح یہاں بھی تمام کورس لیکچر ویڈیوز کی صورت میں مفت دیکھے جا سکتے ہیں(www.vu.edu.pk)۔ حالیہ دنوں میں ایم او او سی کی اہمیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے ورچوئل یونی ورسٹی کے کئی کورسز مختلف ایم اوا و سی پلیٹ فارمز پر پڑھائے جا رہے ہیں مثلاً ورچوئل یونی ورسٹی open course consortiumکا ایک بڑا شراکت دار ہے اور یہاں اردو سمیت بے شمار دیگر کورسز پڑھائے جا رہے ہیں۔
محمد بن موسیٰ الخوارزمی سائنس سوسائٹی پاکستان میں سائنس کے فروغ کے لیے اپنا کردا ادا کر رہی ہے اس کے تحت ہونے والے سیمینار اور مختلف سائنسی موضوعات کے کورسز یو ٹیوب چینل پر اور سوسائٹی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کے اہمیت کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے اب پاکستان میں کئی جامعات اپنے ای لرننگ اور فاصلاتی تعلیم کے منصوبوں کا آغاز کر چکی ہیں۔ اگرچہ یہ تعلیم مفت نہیں ہے پھر بھی ماہنامہ کمپیوٹنگ کے قارئین کی معلومات اور سہولت کے لیے ان کے ربط بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔
مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے صفحات کے نمبرز پر کلک کریں