چاہے فائبر آپٹک لائنیں کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوں، لیکن ان میں اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے: ڈیٹا کو تاروں کے ذریعے بھیجنے کی ضرورت پڑتی ہے، جو اس کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ میں بھی رکاوٹ ہے اور تیز ترین کنکشن کی قیمت کو بھی بڑھا دیتی ہے۔ البتہ سائنس دان ایسا طریقہ دریافت کر چکے ہیں جس سے نہ صرف ان تاروں کا جھنجھٹ ختم ہو سکتا ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ رفتار حاصل کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے فوٹونز کو اس طرح ‘موڑا’ ہے کہ اس سے نہ صرف ہر ٹرانسمیشن میں زیادہ ڈیٹا ارسال کیا سکتا ہے بلکہ یہ فضا میں درپیش تمام رکاوٹوں کو بھی عبور کر رہے ہیں۔
اگر آپ کسی خاص ہولوگرام سے روشنی کو گزاریں تو آپ فوٹونز کو ایک آپٹیکل اینگولر مومینٹم (optical angular momentum) دے سکتے ہیں جو انہیں صرف 1 اور 0 لے جانے کے قابل بناتا ہے ۔ یوں جب تک روشنی کی صورت اور شدت درست رہتی ہے، آپ ڈیٹا ترسیل کر سکتے ہیں۔
تحقیق کرنے والی ٹیم نے جرمنی میں ایک میل کے علاقے میں ایسے ہی لنک کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور یقینی بنایا ہے کہ اس کا تجربہ شہری ماحول میں کیا جائے جہاں بلند عمارات زبردست رکاوٹ بنتی ہیں ۔
اس قسم کے وائرلیس نیٹ ورک کو عملی طور پر لانے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ بالخصوص زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خدمات فراہم کرنے اور بارش یا برف باری کی صورت میں ڈیٹا کے متاثر ہونے کے خدشات پر غور کیا جائے۔ البتہ ابتدائی نتائج بہت شاندار ہیں ۔
اس ٹیکنالوجی کو روشنی کی ترسیل کی راہ میں قدرتی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہوگا جیسا کہ دیوار کے پار روشنی تو آ نہیں سکتی۔ البتہ اس کا حل یوں نکالا جا سکتا ہے کہ گھرں اور دفتروں کو ملٹی گیگابٹس کنکشن فراہم کرنے کے لیے انٹرنیٹ پرووائیڈرز روشنی سے وائرلیس لنکس بنائیں اور تار وہاں استعمال کریں جہاں انتہائی ضرورت ہو ۔