پاکستانیوں کی طرح بھارتیوں کے لیے بھی انٹرنیٹ بس وڈیو دیکھنا ہے، وہاں بھی خبروں کے لیے فیس بک اور میوزک کے لیے یوٹیوب۔ یہ 641 ملین افراد کی انٹرنیٹ استعمال کی عادات کو جانچنے کے لیے کیے گئے ایک حالیہ تجزیے میں پایا گیا۔
وڈیو انٹیلی جینس پلیٹ فارم ‘وڈولی’ نے ستمبر کے مہینے میں ڈیسک ٹاپس اور موبائل ڈیوائسز پر 18 سے 65 سال کے بھارتی باشندون آن لائن مواد کو ٹریک کیا اور میوزک، انٹرٹینمنٹ اور خبروں کی وڈیوز میں بڑھتے ہوئے رحجان کا مشاہدہ کیا ۔ ویوورشپ اور دیکھنے کے اوسط دورانیے میں تمام پلیٹ فارمز پر 40 فیصد اضافہ نظر آیا، جس میں بنیادی اضافہ دوسرے اور تیسرے درجے کے قصبوں میں ہوا ہے۔
اسمارٹ فونز کے استعمال میں تیزی سے ہوتا اضافہ اور سستے انٹرنیٹ پلانز کی بدولت بھارتی اب کھل کر وڈیوز دیکھ رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2018ء تک بھارت میں استعمال ہونے والے انٹرنیٹ کا تین چوتھائی حصہ صرف وڈیوز دیکھنے پر مشتمل ہوگا۔
یوٹیوب پر میوزک وڈیوز سے بڑھ کر کچھ نہیں، ستمبر میں 3 ارب مرتبہ یہ وڈیوز دیکھی گئیں ، جن میں ہندی اور الیکٹرانک موسیقی سب سے آگے رہیں۔ اس کے بعد انٹرٹینمنٹ کی وڈیوز کا نام آتا ہے جنہوں نے 2.4 ارب ویوز لیے ۔ بچوں کے لیے وڈیو مواد تیسرے نمبر پر رہا جو 1.3 ارب مرتبہ دیکھا گیا ۔
بھارت میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے یوٹیوب چینلز مختلف ہیں۔ اس میں ہندی موسیقی کے پیجز جیسا کہ ٹی-سیریز، زی میوزک اور ایروس ناؤ بھی ہیں؛ زی ٹی وی اور سب ٹی وی جیسے ٹی وی چینلز بھی اور چوچو ٹی وی اور سی وی ایس رائمز جیسے بچوں کا مواد پیش کرنے والے بھی ۔
دوسری جانب فیس بک بھارت میں خبروں کے حصول کا ذریعہ بن گیا ہے۔ یہاں پر اے بی پی نیوز، دینک بھسکر، آج تک اور ٹائمز آف انڈیا جیسے مشہور پیجز کی ویور شپ صرف ستمبر میں ہی 1.58 ارب رہی۔ مراٹھی زبان کا اے بی پی ماجھا فیس بک کے سرفہرست 10 نیوز پیجز میں شمار ہوا جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی صارفین انگریزی مواد کے بجائے مقامی زبانوں کے مواد پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
انٹرٹینٹمنٹ فیس بک پر دیکھی جانے والی دوسری سب سے بڑی کیٹیگری ہے جس نے ایک ارب سے زیادہ ویوز اٹھائے۔ آزاد تخلیق کار کہیں دور تیسرے نمبر پر ہیں لیکن ان کی موجودگی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ امیت بھنڈانا اور عاشقین1 جو مزاحیہ وڈیوز بناتے ہیں 100 ملین سے زیادہ ویوز لے چکے ہیں اور فیس بک پر ٹاپ10 وڈیوز بنانے والوں میں شامل ہیں اور اس معاملے میں بز فیڈ انڈیا جیسےادارے اور اسٹار پلس جیسے ٹیلی وژن نیٹ ورک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔