مور کے قانون کو دفنا دینا چاہیے، آوازیں اٹھنے لگیں

کمپیوٹرز کے لیے جو سب سے بہترین چیز ہو سکی ہے وہ مور کے قانون کو ترک کرنا ہے۔اسی قانون کی وجہ سے ماہرین نئے ہارڈ ویئر کو ایجاد کرنے کی بجائے پرانے ہارڈ ویئر سے چپکے بیٹھے ہیں۔ یہ خیالات ہیں ایک معروف سائنسدان جناب آر اسٹینلے ولیمز کے۔ اسٹینلے صاحب ہیولٹ پیکارڈ لیب میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے 2008 ء میں memristor کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا۔

 

مور کا قانون کیا ہے؟

مور کا قانون اصل میں انٹل کے شریک بانی گورڈن مور کا 1965 ء میں پیش کیا جانے والا مشاہدہ ہے، جس نے ڈیوائسز کو چھوٹا اور تیز رفتار بنانے میں مدد دی۔ گورڈن مور صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ ہر 18 سے 24 ماہ کے بعدچِپ پرٹرانسسٹر کی تعداد دُگنی ہوجائے گی جبکہ چپ بنانے کی لاگت کم ہوتی جائے گی۔

مور کا قانون کیوں دفنا دینا چاہیے؟

ہر سال جو کمپیوٹر اور موبائل تیز رفتار ہو رہے ہیں، اس کی وجہ مور کے قانون کی رہنمائی ہے۔ اس مشاہدے سے لاگت کم رکھتے ہوئے ڈیوائس کی کارکردگی بڑھانے میں مدد ملی ہے۔لیکن اس وقت مور کے قانون کی پیش گوئی اپنی انتہائی حد کو پہنچ گئی ہے۔ اس وقت چپ پر مزید چھوٹے ٹرانسسٹر بنانا مشکل ہوگیا ہے اور انٹل سمیت تمام چپ میکرز کو آگے بڑھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

اب اسٹینلے بھی اُن سائنسدانوں میں شامل ہو گئے ہیں ، جن کے خیال میں مور کا قانون غیر ضروری اور بے عمل ہوگیا ہے۔ اُن کے مطابق مور کے قانون کا خاتمہ ہی کمپیوٹنگ کی ترقی کے لیے بہترین ہے۔اسٹینلے نے اس حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے جو IEEE Computing in Science and Engineering کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہوا ہے۔

اسٹینلے کا کہنا ہے کہ مور کے قانون کے خاتمے سے کمپیوٹر کے ڈیزائن اور چپ کی تیاری میں نئی جدت آ جائے گی۔ اس کے بعد سائنسدان چپ پر ٹرانسسٹر کی تعداد کو دُگنا کرنے کی بجائے کارکردگی بڑھانے اور چپ کی لاگت کم کرنے کے لیے مزید راہیں تلاش کریں گے۔اسٹینلے کے خیال میں مور کے قانون نے کمپیوٹر ڈیزائن میں ترقی کے حوالے سے سائنسدانوں کو بند گلی میں کھڑا کیا ہوا ہے۔

اسٹینلے کا مزید کہنا ہے کہ مور کے قانون کے خاتمے کے بعد کمپیوٹر چپس کی سیریز کے ساتھ اپنی طاقت بڑھا سکتے ہیں، جیسے ماضی میں سپر کمپیوٹر تیار کیےجاتے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ مستقبل memory-driven کمپیوٹرز کا ہے۔ یہ ایک ایسا کمپیوٹر آرکٹیکچر ہے جس میں روایتی کمپیوٹر کے برخلاف پروسیسر کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے زیادہ زور میموری پر ہوتا ہے۔

اس کمپیوٹر آرکیٹکچر کو تیار کرنے میں ایچ پی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور اپنے اس نئے کمپیوٹر کو The Machine کا نام دیا گیاہے۔ دی مشین کو memristor میموری کی مدد سے بنایا جانا ہے۔ مستقبل میں نیورومورفک (neuromorphic ) چپ ڈیزائن کرلی جائیں گی۔ یہ چپس انسانی دماغ کی طرح کام کریں گی اور مستقبل کے کمپیوٹر اور کمپیوٹنگ ڈیوائسز انہی پر مبنی ہونگے۔ دوسری جانب کوانٹم کمپیوٹر بھی مستقبل کا کمپیوٹر ہونے کا امیدوار ہے، لیکن اسے عملی طور پر روز مرہ استعمال کے قابل بنانے میں کئی دہائیوں کا وقت لگے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 127 میں شائع ہوئی

چپچپسمورمور کا قانون