اگلے 20 سالوں میں مصنوعی ذہانت رکھنے والی نینو مشینیں انسانوں کے اندر داخل کی جا سکیں گی تاکہ وہ ان کے پٹھوں، خلیات اور ہڈیوں کی خرابیاں ٹھیک کریں اور انہیں طاقتور بنائیں۔
آئی بی ایم ہرسلی انوویشن سینٹر میں کام کرنے والے معروف موجد جان میک نمارا مصنوعی ذہانت کے معاشی، اخلاقی و سماجی اثرات کے بارے میں ایک گفتگو کے دوران کہتے ہیں کہ صرف دو دہائیوں میں ٹیکنالوجی اتنی جدید ہو جائے گی کہ انسان اور مشین کا ایک ملغوبہ بن جائے گا، جس سے انسان کے شعور و آگہی میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے ہم انسانی جسم میں مصنوعی طور پر ذہین نینو مشینیں داخل ہوتے دیکھیں۔ یہ زبردست طبی فوائد کی حامل ہوں گی، جیسا کہ خلیات، پٹھوں اور ہڈیوں کو پہنچنے والے نقصان کو ٹھیک کریں گی، بلکہ انہیں مضبوط بھی کریں گی۔ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے حیاتیاتی و تکنیکی ملاپ سے ہم انسان کی شعور و آگہی کی صلاحیت کو بھی براہ راست بہتر بنا سکیں گے ۔
میک نمارا کہتے ہیں کہ وقت آنے والا ہے کہ انسان اپنی سوچ اور ذہن کو کمپیوٹنگ طاقت کے ذریعے بڑھائے گا اور جسم کے اندر اور اردگرد موجود ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے ماحول کو ہاتھوں کے اشاروں بلکہ سوچ سے بھی کنٹرول کر سکے گا۔
مائیکروسافٹ سمیت مختلف اداروں کے سائنس دان پہلے ہی ایک کمپیوٹر بنا رہے ہیں جو ڈی این اے سے بنے گا، خلیات کے اندر رہ سکے گا اور انسانی جسم میں کینسر جیسی بیماریوں پر نظر رکھے دیکھے گا۔ اگر اسے کینسر کا خدشہ نظر آیا تو یہ سسٹم کو ری بوٹ کرے گا اور بیمار خلیات کا خاتمہ کرے گا ۔
البتہ میک نمارا نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت کا فروغ ‘بڑے پیمانے پر انتشار’ کا سبب بھی بن سکتا ہے، بالخصوص خوردہ فروخت اور خدمات کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے، کیونکہ یہ بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری کو فروغ دے گا ۔ انہوں نے کہا کہ "آج کے زمانے میں نیا اسمارٹ فون خریدنے کی طاقت نہ رکھنا غربت ہے، کل اس کا مطلب ہوگا دو ایسے گروہ جن میں سے ایک اپنی جسمانی، ذہنی صلاحیت، صحت اور عمر میں بے پناہ اضافے کے ساتھ امیر ہوگا جبکہ دوسرے، اور زیادہ بڑے گروہ، کو یہ صلاحیت حاصل نہ ہوگی اور یہی طبقہ غریب کہلائے گا۔”