موت ایک اٹل حقیقت اور انسان کے لیے سب سے بڑا راز ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے کے دل میں ‘موت ایک چبھتا ہوا کانٹا’ ہے۔ وہ اس پر موجود راز کے پردوں کو اٹھانا چاہتا ہے اور پردے کے اُس پار دیکھنا چاہتا ہے۔ کوئی کیوں مرتا ہے؟ کہاں جاتا ہے؟ اصل میں ہوتا کیا ہے اور موت کے وقت کیا احساس ہوتا ہے؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موت کے وقت انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ مر رہا ہے یہاں تک کہ جسم میں زندگی کی علامات ختم ہونے کے بعد بھی اس کا شعور کام کرتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کوئي شخص طبّی عملے کی کی جانب سے اپنی موت کا اعلان بھی سن رہا ہو۔
یہ انوکھا دعویٰ نیو یارک شہر کے این وائی یو لینگوٹ اسکول آف میڈیسن میں ڈائریکٹر انتہائی نگہداشت و بحالی زندگی تحقیق ڈاکٹر سیم پرنیا نے کیا ہے۔ وہ اور اُن کی ٹیم دل کے دورے سے متاثر ہونے والے ان افراد پر کام کرتی ہے، جو تکنیکی طور پر تو مر چکے ہوں لیکن ٹیم کے اقدامات کے نتیجے میں انہیں نئی زندگی ملتی ہے۔
اپنی طرز کی اِس سب سے بڑی تحقیق میں چند حیران کن انکشافات ہوئے ہیں، جیسا کہ کچھ افراد اپنے اردگرد ہونے والی گفتگو سے آشنا تھے، بلکہ وہ تمام کارروائی دیکھ رہے تھے حالانکہ طبی عملہ اُن کی موت کا اعلان کر چکا تھا۔ اس امر کی تصدیق اس طبی عملے نے بھی کی جو اس موقع پر موجود تھا۔
عملی طور پر موت اس لمحے کو کہا جاتا ہے جس میں دل کی دھڑکن بند ہو جائے اور دماغ کو خون کی فراہمی رک جائے۔ ڈاکٹر سیم پرنیا کے مطابق تکنیکی طور پر موت کا درست وقت یہی ہے۔ سب کچھ دل کی دھڑکن پر منحصر ہے، ایک مرتبہ رک جائے تو دماغ کو خون کی فراہمی بند ہو جاتی ہے اور وہ فوری طور پر کام روک دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بولنے و دیکھنے کی اور دیگر تمام صلاحیتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ البتہ اس امر کی شہادتیں موجود ہیں کہ مرتے ہوئے دماغ میں ایک جھماکا ہوتا ہے۔
2013ء میں یونیورسٹی آف مشیگن میں ایک تحقیق کے دوران دو بے ہوش چوہوں کے دماغ میں ایسے برقی سگنل دیکھے گئے تھے جنہیں دل کا دورہ پڑ رہا تھا۔ ایسا کچھ ہی اس نئی تحقیق میں بھی دیکھا گیا ہے کہ طبی طور پر موت ہو جانے کے کچھ دیر بعد ہی دماغ میں ‘ہائپر الرٹ’ حالت جیسی ایک سرگرمی دیکھی گئی۔
ڈاکٹر پرنیا کا کہنا ہے کہ جس طرح سائنس دان ‘محبت’ کے انسانی تجربے پر تحقیق کر رہے ہیں، اسی طرح موت کے لمحات میں انسان کن تجربات سے گزرتا ہے؟ اس کی خصوصیات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔