وائرلیس نیٹ ورک کی کارکردگی میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ بھیجے گئے ڈیٹا پیکٹس کا ضائع ہوجانا ہے۔ عام طور پر وائر لیس نیٹ ورک پر بھیجے گئے ڈیٹا پیکٹس میں سے 2فی صد ضائع ہوجاتے ہیں جبکہ چلتی ٹرین میں یہ شرح مزید بڑھ کر 5فی صد تک جا پہنچتی ہے۔ جب بھی کوئی ڈیٹا پیکٹ ضائع ہوتا ہے یعنی ڈیٹا کے وصول کنندہ تک نہیں پہنچ پاتا، نیٹ ورک کی کاردگردی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وصول کنندہ اس وقت تک مزید کچھ نہیں کرتا جب تک اسے ضائع ہوجانے والا پیکٹ دوبارہ صحیح سے موصول نہ ہوجائے۔ ایک آدھ پیکٹ کی صورت میں یہ قابل قبول ہے مگر جیسا کہ وائرلیس نیٹ ورکس میں پیکٹس کے ضائع ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے، اس لئے ان نیٹ ورکس کی کار کردگی اتنی بہتر نہیں رہتی جتنی کہ تار سے جڑے نیٹ ورکس کی ہوتی ہے۔
محققین کے تیار کردہ طریقہ کار Coded TCP جس کی مکمل تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئیں، میں ڈیٹا بھیجنے اور وصول کرنے کا ایسا میکنزم بنایا گیا جس کی وجہ سے ڈیٹا پیکٹ ضائع ہونے کی وجہ سے نیٹ ورک کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی بھیجنے والے کو ڈیٹا دوبارہ بھیجنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
عام ٹی سی پی (TCP) لنک (جیسے کہ LANیا وائی فائی) میں نیٹ ورک ایڈاپٹر کی مدد سے ڈیٹا ایک مخصوص رفتار سے اور ایک خاص سائز جیسے 1500بائٹس کے پیکٹس میں ارسال کرتا ہے۔ ان پیکٹس کے ہیڈر میں وصول کرنے کی والی کی تفصیلات مثلاً آئی پی ایڈریس موجود ہوتی ہیں۔ یہ پیکٹس رائوٹر تک پہنچتے ہیں جو ان پیکٹس کے ہیڈر میں موجود معلومات کو پڑھ کر ان کے مطابق پیکٹس کو وصول کنندہ کی جانب بھیج دیتا ہے۔ وصول کنندہ سارے پیکٹس کو اکٹھا کرکے انہیں جوڑ لیتا ہے ۔ اس سارے عمل کے دوران اگر کہیں کوئی پیکٹ وصول کنندہ تک نہ پہنچ پائے تو وصول کنندہ، ڈیٹا بھیجنے والے کو اس پیکٹ کو دوبارہ ارسال کرنے کا پیغام بھیجتا ہے اور تب تک انتظار کرتا ہے جب تک کہ مطلوبہ پیکٹ موصول نہ ہوجائے۔ لیکن Coded TCPمیں ڈیٹا کے سب بلاکس کو ایک ساتھ جوڑ کر ایک الجبرا کی مساوات میں بدل دیا جاتا ہے جو ڈیٹا پیکٹس کی مکمل ترجمانی کررہی ہوتی ہے۔ اگر وصول کنندہ کسی وجہ سے کوئی پیکٹ وصول نہ کر پائے تو وہ ضائع ہوجانے والے پیکٹ کی مساوات کو خود حل کرلیتا ہے۔ مساوات حل کرنے کا عمل سادہ اور لینئر(Linear) ہے اور اس کے لئے زیادہ پروسسنگ کی طاقت ضرورت پیش نہیں آتی۔ Coded TCPکا لائسنس پہلے ہی کئی سافٹ ویئر اور ہارڈویئر بنانے والی کمپنیوں نے خرید لیا ہے جن کے نام ابھی ظاہر نہیں کئے گئے۔ امید کی جاری ہے کہ اگلے چند ماہ میں یہ ٹیکنالوجی عملی طور پر صارفین کے زیر استعمال ہوگی۔