تصور کریں کہ ایک دن آپ اتنا ڈیٹا اپنی جیب میں لے کر گھومیں جتنا آج کل سرورز سے بھرے ہوئے کمروں میں محفوظ ہوتا ہے۔یہ IBM کے اُن سائنسدانوں کا خواب ہے جنہوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا مقناطیس بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ مقناطیسی صرف 1 ایٹم کو معلومات محفوظ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس وقت جو مقناطیسی ہارڈڈسک ہم استعمال کرتے ہیں، ان میں ہر ایک بٹ کو محفوظ کرنے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ ایٹم استعمال ہوتے ہیں۔ دوسری جانب محققین اب تک تین سے 12 ایٹموں کے جتھے پر ایک بٹ محفوظ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ لیکن آئی بی ایم کا صرف 1 ایٹم پر 1بٹ محفوظ کرنے اور پھر اسے کامیابی سے پڑھنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اگر آئی بی ایم کے محققین کا خواب پورا ہو جاتا ہے تو آپ آئی ٹیون لائبریری میں موجودتمام 35 ملین گانوں کو اپنی کریڈٹ کارڈ جتنی ہارڈڈسک میں محفوظ کرسکیں گے۔
آئی بی ایم گزشتہ 35 سالوں سے نینو ٹیکنالوجی پر تحقیق کررہا ہے۔ 1981ء میں آئی بی ایم کے تحقیق کاروں Gerd Binnig اور Heinrich Rohrer نے اسکینگ ٹنلنگ مائیکرواسکوپ (STM) ایجاد کی۔ اس کے ذریعے ایٹموں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس ایجاد پر دونوں تحقیق کاروں کو 1986ء میں طبیعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔ اسی STMکو آئی بی ایم کے سائنس دانوں نےہولمیم (Holmium) کے ایٹم دیکھنے اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ دوری جدول پر ہولمیم کا ایٹمی نمبر 67 ہے اور اس کے لئے Ho کا نشان استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نایاب زمینی عنصر ہے۔ ہولمیم کے ایٹموں کو جب میگنیشیم آکسائیڈ کے اوپر رکھا جاتا ہے تو ان میں ایک خاص خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے جسے magnetic bistability کہا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو اس طرح ہولمیم کو ایٹم دو مستحکم مقناطیسی حالتوں میں ہوسکتے ہیں۔
آئی بی ایم کی ٹیم نے ہولمیم کے ایٹم سے ایس ٹی ایم کے اسکیننگ ٹنلنگ مائیکرواسکوپ کے ذریعے 10مائیکرو ایمپیئر کرنٹ 150 ملی وولٹ وولٹیج گزارا۔ اس طرح ایٹم کی مقناطیسی حالت تبدیل ہوگئی۔ اس ایٹم کی مقناطیسی حالت کو پڑھا جاسکتا ہے کیونکہ ہر مقناطیسی حالت میں ایٹم کی موصلیت (conductivity) مختلف ہوتی ہے۔ ایٹم میں سے کم وولٹیج گزار کر اس کی مزاحمت پڑھنے سے ایٹم کی مقناطیسی حالت جانی جاسکتی ہے۔ ایٹم کی مقناطیسی حالت میں من چاہی تبدیلی کرنے کی صلاحیت ہی اصل کامیابی ہے۔ کیونکہ ایک مقناطیسی حالت کو 0 اور دوسری حالت کو 1 سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یہ تو آپ کے علم میں ہوگا ہی کہ کمپیوٹر اسٹوریج میں ڈیٹا 0 اور 1 کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے ثابت کیا کہ دو مقناطیسی ایٹموں کو الگ الگ read اور write کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ اُس وقت بھی جب ان کے درمیان فاصلہ صرف ایک نینو میٹر ہو۔ اتنے کم فاصلے پر بٹس بنانے کا مطلب ہے کہ آج جتنی جگہ میں ہم 1 بٹ محفوظ کرسکتے ہیں، مستقبل میں اتنی ہی جگہ پر 1000 بٹس محفوظ کرسکیں گے۔ اس طرح کی نینو اسٹرکچر کی وجہ سے مستقبل کے سرور، کمپیوٹر اور پرسنل ڈیوائسز مزید چھوٹے اور طاقت ہوجائیں گے۔ لیکن یہ سب راتوں رات نہیں ہوجائے گا۔ آئی بی ایم کے سائنسدانوں نے ایٹموں کو ڈیٹا محفوظ کرنے کے لئے استعمال کرنے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے، لیکن اسے تجارتی پیمانے پر قابل عمل بنانا آسان کام نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے درجنوں مشکلات کی نشاندہی پہلے ہی کی جاچکی ہے۔
آئی بی ایم کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کے تجربے میں ایٹموں کی مقناطیسی حالت کچھ گھنٹوں تک برقراررہی ۔ یہ بات نامعلوم ہے کہ آیا ایٹموں کی مقناطیسی حالت کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر رکھا جاسکتا ہے تو کیسے؟ ماہرین یہ بھی جانتے ہیں کہ ایٹم حرارت کی وجہ سے اپنی مقناطیسی حالت بدل بھی سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو قابل عمل بنانے کے لئے ایک ایٹم پر بٹ محفوظ کرنے کے بجائے سائنس دان کئی ایٹموں کو جوڑوں یا جتھے کو استعمال کریں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 126 میں شائع ہوئی
اگر آپ یہ اور اس جیسی درجنوں معلوماتی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں تو گھر بیٹھے کمپیوٹنگ کا تازہ شمارہ حاصل کریں۔