2012ء کی Fortuneرینکنگ کے مطابق آئی بی ایم ملازمین کے حساب سے امریکہ کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ جبکہ منافع کے لحاظ سے اس کا نمبر نواں ہے۔ آئی بی ایم کے پاس کسی بھی دوسری امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیٹنٹس (Patents) ہیں اور اس کی 9ریسرچ لیباریٹریز دنیا بھر میں موجود ہیں جو نت نئی ایجادات اور دریافتوں کا منبع ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ آئی بی ایم کے ملازمین نے اب تک پانچ نوبل پرائز جیتے ہیں۔ جبکہ دیگر درجنوں اعلیٰ ایوارڈز اس کے علاوہ ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے ملازمین کا اتنی بڑی تعداد میں نوبل پرائز جیتنا بذات خود ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔ دنیا بھر میں اس کے کل ملازمین کی تعداد ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ صرف بھارت میں آئی بی ایم کے ملازمین کی تعداد 75ہزار ہے۔ جبکہ اس کا کاروبار 170 ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
ہمارے روز مرہ استعمال کی کئی چیزیں آئی بی ایم ہی کی ایجاد کردہ ہیں۔ اسی لئے اس دنیا کی چند بہترین تخلیقی کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اے ٹی ایم جس نے کنزیومر بینکنگ میں ایک انقلاب برپا کیا، فلاپی ڈسک جس نے ڈیٹا اسٹوریج کی دنیا کو ایک نئی جہت بخشی، ہارڈڈسک جس کے بغیر اب کمپیوٹر کا تصور بھی مشکل ہے، میگنیکٹ اسٹرپ کارڈ، ریشنل ڈیٹا بیس ، یونی ورسل پراڈکٹ کوڈ، ڈی ریم وغیرہ سب آئی بی ایم ہی کی ایجادات ہیں۔
اس وقت آئی بی ایم کا کاروبار نہ صرف کمپیوٹر ہارڈویئر، بلکہ سافٹ ویئر، مین فریم کمپیوٹرز، نینو ٹیکناجی، مصنوعی ذہانت، کنسلٹنگ سروس، انفراسٹرکچر اور ہوسٹنگ تک پھیلا ہوا ہے۔
اگرچہ عام کمپیوٹرز بنانے میں اس کا کردار اب نہ ہونے کے برابر ہے لیکن آج بھی کمپیوٹر آئی بی ایم کے متعین کردہ معیارات کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔
اس ادارے کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ طویل ہے۔ 1911ء میں جب اس کمپنی کی بنیاد رکھی گئی اس وقت اس کے صرف تیرہ سو ملازمین تھے۔ 1914ء میں تھامسن جے واٹسن کو اس کے سربراہی کی ذمہ داری دی گئی۔ واٹسن نے اس ذمہ داری کو بے حد احسن طریقے سے نبھایا اور کمپنی دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگی۔صرف چار سال میں کمپنی کی آمدن دگنی یعنی 9ملین ڈالر ہوگئی اور کمپنی کا کاروبار یورپ سمیت، سائوتھ امریکہ، ایشیا اور آسٹریلیا میں پھیل گیا۔ آئی بی ایم کے لئے THINKکا مشہور زمانہ سلوگن بھی انہی کا متعارف کردا ہے۔
1937ء آئی بی ایم کی تیار کردہ حسابی مشینیں کمپنیوں کے لئے لازم ہوگئیں۔ ان مشینوں کی مدد سے بڑے بڑے حساب کتاب بہ آسانی کرلیئے جاتے تھے۔ امریکی حکومت بھی اس کے صارفین میں شامل تھی جسے کے 26ملین لوگوں کی ملازمتوں کا ریکارڈ ترتیب دینے کے منصوبے کو آئی بی ایم کی مدد سے پورا کیا۔ یہ بات ضرور دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ آئی بی ایم نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کے امریکی حکومت کے لئے چند چھوٹے ہتھیار بھی تیار کئے تھے۔
1952ء میں اپنے والد کی چالیس سالہ صدارت کے بعد تھامس جے واٹسن جونیئر نے ان کی جگہ سنبھالی۔ 1956ء میںآئی بی ایم کے آرتھر ایل سیموئل نے IBM 704 تیار کیا جو کہ شطرنج کھیل سکتا تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ اپنے تجربے سے خود بخود سیکھتا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کا پہلا عملی مظاہرہ تھا۔
1957 میں IBM نے مشہور زمانہ ہائی لیول کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج فورٹران متعارف کروائی۔ سائنسی پروگرام کے لیئے خاص سہولیات رکھنی والی فورٹران آج بھی استعمال کی جاتی ہے۔ 1961 میں تھامس جے واٹسن جونیئر بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ البرٹ ایل ولیمز کمپنی کے صدر بنے۔
IBMنے امریکی ایئر لائن کے لئے SABREنامی ایک ریزرویشن سسٹم تیار کیا جس نے فضائی آمد ورفت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ 31 جولائی 1961ء کو آئی بی ایم نے Selectric ٹائپ رائٹر کے نام سے الیکٹرک ٹائپ رائٹر متعارف کرایا جو کہ بے حد مقبول ہوا۔1963 میں آئی بی ایم کے ماہرین اور کمپیوٹرز کی مدد سے ناسا نے مرکری پراجیکٹ کے خلابازوں کی زمین کے گرد پرواز کو مانیٹر کیا۔ اسکے ایک سال بعد IBM نے اپنا ہیڈ کوارٹر نیویارک سٹی سے آرمونک، نیویارک منتقل کر دیا۔ آئی بی ایم نے خلائی مہمات میں اپنی خدمات جاری رکھیں اور ناسا کے خلائی مشنز میں بھرپور معاونت فراہم کرتا رہا۔ 1965 ء کی Gemini پرواز ہو یا 1966ء کی Saturn پرواز یا پھر 1969ء میں چاند کی طرف بھیجا جانے والا خلائی مشن، IBM نے سب میں اہم کردار ادا کیا۔
7 اپریل 1964ء کو IBM نے IBM System/360 متعارف کرایا جو کہ 1964ء سے 1978ء کے درمیان فروخت ہوتا رہا۔ یہ کمپیوٹروں کی نسل کا پہلا کمپیوٹر تھا جو چھوٹے بڑے تمام تجارتی اور سائنسی پروگراموں کو چلا سکتا تھا۔اس کی مدد سے پہلی بار کمپنیاں اس قابل ہوئیں کہ کمپیوٹر اپیلی کیشن کو دوبارہ لکھے بغیر بھی کمپیوٹر کو اپ گریڈ کر سکیں۔ 1973ء میں IBM کے انجینئر نے یونیورسل پراڈکٹ کوڈ بنایا۔ 11اسی تناظر میں اکتوبر 1973ء کو آئی بی ایم 3660 متعارف کروایا گیا جو کہ ایک لیزرا سکینگ بار کوڈ ریڈر تھا جس کی مدد سے خریداری کا عمل بے حد تیز رفتار ہوگیا۔آج تقریباً ہر بڑے اسٹور پر بار کوڈ کے ذریعے اشیاء کو اسکین کرنا اور ان کا حساب کتاب کرنا ایک عام بات ہے۔
1966ء میں آئی بی ایم کے محقق رابرٹ ایچ ڈینارڈ نے DRAM ایجاد کی۔ ڈی ریم جدید کمپیوٹر سمیت تقریباً تمام ڈیجیٹل آلات کا ایک اہم جز ہے۔
1970ء کی دہا ئی کے آخر میں آئی بی ایم کی انتظامیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ایک گروپ یہ چاہتا تھا کہ جیسے دال روٹی چل رہی ہے، اسے ویسے ہی چلنے دیا جائے جبکہ دوسرا دھڑا کہتا تھا کہ پرسنل کمپیوٹر پر بھاری سرمایہ کاری کی جائے۔
آئی بی ایم نے 1981ء میں IBM PC متعارف ہوا جس نے جلد ہی صنعتی معیار کا درجہ حاصل کر لیا۔ 1991ء میں IBM نے Lexmarkکو فروخت کر دیا جبکہ 2002ء میں PwC Consultingنامی کمپنی کو خرید لیا۔ اپنی سو سالہ تاریخ کے دوران آئی بی ایم نے اپنے کئی کاروبار فروخت بھی کیئے ہیں اور کئی کمپنیوں کو خرید کر اپنے کاروبار کو پھیلایا بھی ہے۔ 2003ء میں آئی بی ایم نے اپنی ہی ایک ٹیکنالوجی JAM کی مدد سے اپنے پچاس ہزار ملازمین کے ساتھ بذریعہ انٹرنیٹ کاروباری مسائل پر بات چیت کی اور اس تمام بات چیت کا متن ایک طاقتور تجزیہ کار سافٹ (eClassifier) کی مدد سے جانچا گیا۔ اس سارے عمل کا مقصد آئی بی ایم کی کاروباری اقدار کو جدید طرز پر استوار کرنا تھا۔ ایسا ہی ایک اور میٹنگ جس میں 52ہزار ملازمین شامل تھے، 2004ء میں بھی منعقد کی گئی۔ 2005ء میں کمپنی نے اپنا پرسنل کمپیوٹرز کا کاروبار Lenovo کو فروخت کردیا کیونکہ اس وقت تک ایچ پی، ڈیل اور دوسری کمپنیاں مارکیٹ میں اپنے اجارہ داری قائم کرچکی تھیں اور آئی بی ایم کے لئے اس کاروبار پر توجہ دینے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
آئی بی ایم اوپن سورس تحریک کا بڑا حامی رہا ہے اور 1998ء سے اس نے باقاعدہ طور پر لینکس کی حمایت شروع کردی ہے۔ کمپنی نے لینکس کی ترقی اور ترویج کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں اور اس مقصد کے لئے باقاعدہ ایک انسٹی ٹیوٹ لینکس ٹیکنالوجی سینٹر کے نام سے قائم کررکھا ہے جہاں تین سو سے زائد ڈیویلپرز کام کررہے ہیں جن کا کام لینکس کی Kernel کو بہتر سے بہتر بنانا ہے۔ اسی طرح آئی بی ایم نے اپنے کئی کلوڈ سورس سافٹ ویئر کا کوڈ بعد میں جاری کردیا تھا۔ ان میں سے ایک مشہور سافٹ ویئرe Eclipsہے جس کی مالیت اوپن سورس کرنے سے پہلے 40 ملین ڈالر تھی۔ تاہم آئی بی ایم کا اوپن سورس تحریک کا سفر اتنا سیدھا نہیں رہا اور اسے کئی قانونی چارہ جوئیوں کا سامنا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے میدان میں آئی بی ایم کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈیپ بلو نامی سپر کمپیوٹر نے 11مئی 1997ء کو شطرنچ کے عالمی چمپیئن گیری کیسپاروف کو شکست دے کر سب کو حیران کردیا۔ اگرچہ گیری کیسپاروف کا خیال ہے کہ آئی بی ایم نے دھوکہ دہی سے کام لیا ۔ کیسپاروف نے مقابلہ دوبارہ کروانے کا مطالبہ کیا مگر آئی بی ایم نے نہ صرف یہ کہ منع کردیا بلکہ ڈیپ بلیو کو بھی توڑ دیا۔
2011ء میں آئی بی ایم ایک بار پھر مصنوعی ذہانت کے حوالے سے خبروں میں نمایاں ہوگیا جب اس نے Watsonنامی مصنوعی ذہانت کا حامل کمپیوٹر سسٹم پیش کیا۔ اس سسٹم کا نام واٹسن آئی بی ایم کے پہلے صدر کے اعزاز میں رکھا گیا۔ اس سسٹم کی صلاحیتوں کے جانچ کے لئے اسے Jeopardy! نامی امریکی ٹیلی وژن کوئز شو میں مقابلے کے پیش کیا گیا جہاں اس نے براڈ روٹر (Brad Rutter) کو شکست دے دی۔ براڈ روٹر اس کوئز شو پر سب سے زیادہ پیسے جیتنے والے کھلاڑی تھے۔ اس سسٹم کا ہارڈویئر کسی سپر کمپیوٹر سے کم نہیں۔ اس میں صرف میموری ہی 16 ٹیرا بائٹس نصب ہے۔ پروسیسنگ پاور کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ 500 گیگا بائٹس جتنا ضخیم ڈیٹا صرف ایک سیکنڈ میں پروسس کرسکتا ہے۔ بلیو جین نامی سپر کمپیوٹرز کی نسل بھی آئی بی ایم کی تیار کردہ ہے جسے 2009ء میں امریکی صدر بارک حسین اوبامہ نے نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی اینڈ اینویشن سے نوازا۔
16اگست 2012ء کو آئی بی ایم نے اعلان کیا کہ وہ ٹیکساس میموری سسٹمز نامی ایک مشہور کمپنی کو خرید رہا ہے۔اسی ماہ یعنی 27اگست 2012ء کو آئی بی ایم نے Kenexaنامی کمپنی کو 1.3 ارب ڈالر میں خریدا۔ ٭٭