کمپنی کے آفیشل اعداد وشمار کے مطابق فیس بک کی 85 فیصد آمدنی اشتہارات سے آتی ہے، خاص طور سے وہ اشتہار جو صفحات اور صارفین کی پروفائلزکے دائیں یا بائیں جانب نظر آتے ہیں۔ در حقیقت فیس بک سالانہ ایک ارب ڈالر منافع کمانے کے لیے آپ کا مفت فراہم کردہ Contents استعمال کرتا ہے، ویب سائٹ کا ذہین نظام صارفین کی ارسال کردہ پوسٹس کے مواد کا تجزیہ کر کے ایسی معلومات حاصل کرتا ہے جنہیں اشتہارات کی غرض سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جب آپ لائک کے بٹن پر کلک کرتے ہیں، اپنا اسٹیٹس لکھتے ہیں، یا کوئی ویڈیو دیکھتے یا آڈیو سنتے ہیں، یا کسی صفحے پر جاکر اس کے مواد کا مطالعہ کرتے ہیں اور لائک کے بٹن پر کلک کیے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں الغرض کہ آپ کی کوئی بھی چھوٹی اور معمولی سی حرکت کو آپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس معلومات سے استفادہ حاصل کر کے آپ کو بطور گاہک ’’متوقع خریدار یا صارف‘‘ کے اشتہارات دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اشتہار دینے والی کمپنی یا فرد نے متوقع صارف کی جو شرائط دے رکھی ہیں، آپ ان سے مطابقت نہ رکھتے ہو۔
اس طرح کی ساری معلومات تمام صارفین سے حاصل کی جاتی ہیں، چاہے وہ کسی بھی پلیٹ فارم سے فیس بک استعمال کر رہے ہوں، جیسے عام کمپیوٹر، موبائل، ٹیبلیٹ، اور پھر اس کی بنیاد پر ہر صارف کا ایک سوشل گراف بنایا جاتا ہے۔
یہ سوشل گراف کیا ہے؟ یہ ایک طرح کا نیٹ ورک ہے جس کا محور آپ ہیں، اس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جو آپ نے Contentکے طور پر فیس بک میں داخل کی ہیں، جب آپ کے پاس 955 ملین سوشل گراف ہوں تو نظام ان کے درمیان مماثلتوں کو تلاش کرتا ہے اور ایسی عمومی معلومات کشید کرتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر اشتہاری مہم چلائی جاتی ہیں یا ان معلومات کو فروخت کردیا جاتا ہے جو عام طور پر اشتہاری ایجنسیاں ہوتی ہیں تاکہ وہ مشتہرین کے لیے ان معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے اشتہاری مہم چلا سکیں۔
فرض کرتے ہیں کہ آپ کو ایکشن فلموں سے دلچسپی ہے، آپ نے کچھ اہم فلموں کے صفحات پر جاکر انہیں لائیک کیا، کچھ اداکاروں کو لائیک کیا، ان کی تصاویر شیئر کیں، ان فلموں کے ویڈیو کلپس دیکھے اور اپنے اسٹیٹس میں کسی مخصوص فلم کے بارے میں رائے زنی کی، آپ کے کچھ دوست بھی ہیں جن کی بعینہ یہی دلچسپیاں ہیں، ایک بار آپ نے اپنے اسٹیٹس میں لکھا کہ آپ نے اپنے فلاں دوست کے ساتھ (جوکہ فیس بک کا صارف ہے) فلاں فلم دیکھی، اس کے ساتھ ساتھ آپ کو گاڑیوں میں بھی دلچسپی ہے خاص طور سے اسپورٹس کار، چنانچہ آپ نے کچھ کاروں کے صفحات پر انہیں لائیک کیا اور کچھ گاڑیوں کے تازہ ترین ماڈلوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں حتیٰ کہ آپ نے کچھ دوسری ویب سائٹس پر بھی کاروں کے حوالے سے کچھ مضامین پڑھے اور ان مضامین کو اور کچھ کاروں کی تصاویر کو فیس بک پر شیئر کیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سارے ان پْٹ ڈیٹا کا کیا مطلب ہے؟ یہ ایک سونے کی کان ہے جو آپ فیس بک کو مفت میں فراہم کرتے ہیں۔
فیس بک آپ کی ان ساری معلومات کو بلکہ ایسی دلچسپیوں کے حامل دیگر لاکھوں لوگوں کی معلومات کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرتا ہے اور آپ کو ٹارگیٹڈ اشتہارات targeted advertisement دکھاتا ہے، جیسے کاروں کے کسی میگزین کا اشتہار، یہ کسی نئی ایکشن فلم کا اشتہار جو جلد ہی سینما میں لگنے والی ہو، یہ اشتہارات صرف ان لوگوں کو نظر آتے ہیں جنہوں نے ان چیزوں پر ذرا سی بھی دلچسپی دکھائی ہوتی ہے، جبکہ دیگر لوگوں کو یہ اشتہارات نظر نہیں آتے جن کی اشتہار پسند کرنے کے امکانات نہ ہو۔
ٹارگیٹڈ اشتہارات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنیاں اپنی رقم صرف ان لوگوں کو اشتہارات دِکھانے پر خرچ کرتی ہیں جنہوں نے بقلم خود لائیک کے بٹنوں پر کلک کر کر کے اور تصاویر شیئر کر کر کے انجانے میں یہ اعلان کردیا ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ ٹی وی یا کیبل پر دکھائے گئے اشتہارات سے زیادہ بہتر نتائج دیتے ہیں کیونکہ ٹی وی، اخبار یا ریڈیو وغیرہ پر صرف مخصوص افراد کے لئے اشتہار چلانا ممکن نہیں۔ ان پر چلنے والا اشتہار سب دیکھتے ہیں۔فیس بک کی ٹارگیٹڈ اشتہارات کی اس مثال کو آپ ایسی کئی مشابہ صورتحالوں پر لاگو کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ کے شہر میں کسی نئے اسپتال کا افتتاح ہوا ہے اور وہ اسپتال اپنی ولادت کی خدمات کو مشتہر کرنا چاہتا ہے تو وہ فیس بک پر ایک اشتہاری مہم چلائے گا اور متوقع صارفین کے دقیق تر معیارات کا تعین کرے گا، مثلاً مشتہر چاہتا ہے کہ اس کا اشتہار صرف شادی شدہ، پڑھی لکھی اور زیادہ آمدنی رکھنے والی اور اسی شہر میں رہنے والی حاملہ خواتین کو دکھایا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ فیس بک پر موجود لاکھوں خواتین میں سے فیس بک کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ان معیارات پر کون سی خواتین پوری اترتی ہیں؟ جواب ہے وہ مواد جو وہ فیس بک کو سونے کی طشتری میں رکھ کر خود پیش کرتی ہیں، جب آب اپنی پروفائل میں اپنے رہنے کی جگہ، شادی کی تاریخ، تعلیمی قابلیت، کام کی نوعیت اور دیگر معلومات شامل کرتے ہیں تو یہ ساری معلومات ہدف کا مظہر ہوتی ہیں۔
آمدنی کے بنیادی ذرائع
2008ء میں اس طرح کے اشتہارات اور اس سے متعلقہ معلومات کی فروخت کمپنی کے کْل منافع کے ذرائع کا 98% فیصد تھا، مگر جیسا کہ اکثر سرمایہ کار کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’کبھی بھی سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئے‘‘، فیس بک کے لئے آمدنی کے صرف ایک ذریعے پر انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا تھا، چنانچہ فیس بک نے آمدنی کے دیگر ذرائع پر کام کرنا شروع کیا چاہے ان سے اتنی زیادہ آمدنی نہ بھی ہو اور یوں منافع میں اشتہارت کا حصہ 85% فیصد ہوگیا جبکہ 15% فیصد آمدنی کے دیگر ذرائع ہیں۔
1- فی کلک ادائیگی کے اشتہارات (PPC):
یہ بعینہ گوگل کے ایڈ ورڈز کا آئیڈیا ہے، اس طرح فیس بک مشتہرین اور ناشرین کو یکجا کرنے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا اور ہر اشتہار پر فی کلک کے حساب سے اپنی آمدنی کھری کرنے لگا۔
2-اسپانسر کے اشتہارات:
اس طریقے کو صرف بڑِی کمپنیاں اپناتی ہیں اور صرف اپنے صفحے تک ہی لاگو کرتی ہیں مثلاً جرمنی کی ایک گاڑیاں بنانے والی کمپنی کم آمدنی والے افراد کے لیے مناسب قیمت پر ایک کار پیش کرنے والی ہے جو ایندھن کم خرچ کرے گی اور اس میں گنجائش زیادہ ہوگی وغیرہ۔کمپنی یہ اسپانسر اشتہار اپنے صفحے پر اس طرح دے گی کہ اس نئے ماڈل کی گاڑی کا اشتہار صرف ان لوگوں کو نظر آئے گا جو آمدنی کی مخصوص شرائط پر پورے اترتے ہوں، شادی شدہ اور بال بچے دار ہوں اور زیادہ نقل وحرکت کرتے ہوں،
ان میں سے کچھ معلومات کا براہ راست حصول ممکن ہے جبکہ بعض معلومات کو کچھ منطقی تعلق کی ضرورت ہے، مثلاً آپ زیادہ نقل وحرکت کرتے ہیں اس بات کا فیس بک کو یوں پتہ چلے گا کیونکہ آپ مختلف ملکوں، شہروں یا علاقوں سے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں لاگ ان ہوں گے اور آپ کی آئی پی کی وجہ سے آپ کی رہائش یا جگہ کی شناخت کر لی جائے گی، تاہم یہاں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے کیونکہ آئی پی سے جگہ کا اندازہ لگانا سو فی صد ممکن نہیں۔
یہ اشتہارات یا تو فی کلک ادائیگی یعنی PPC ہوتے ہیں یا مخصوص مدت تک کے لیے مخصوص قیمت پر چلائے جاتے ہیں یا صرف ظاہر ہونے کی تعداد کے حساب سے۔
3- گفٹ شاپ:
انتہائی سادہ سا آئیڈیا ہے اور انفرادی طور پر اتنا مہنگا بھی نہیں تاہم اس سے ضخیم رقوم پیدا کی جاسکتی ہے اگر صارفین کی بہت بڑی تعداد اس پر عمل کرے، مثال کے طور پر آپ اپنے دوست، بیوی، بچوں کو کام پر یا کسی موقع پر ایک (تصوراتی) تحفہ ارسال کرتے ہیں – جبکہ امریکا میں اصلی تحفوں کا آپشن بھی موجود ہے ۔ مگر اس تحفے کی قیمت ادا کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایک ڈالر بہت سے لوگوں کے لیے ایک معمولی رقم ہے، اور اگر ایک دن میں فیس بک کے صارفین میں سے صرف 1% فیصد صارفین بھی اس پر عمل کر ڈالیں تو یہ 9 ملین ڈالر سے زیادہ بنتے ہیں، اچھی رقم ہے… ہے نا؟
4- تصوراتی رقم یا فیس بک کا پیسہ
فیس بک پر گیمز کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس حوالے سے بھی کمائی کا ایک طریقہ نکال لیا گیا ہے۔ فارم ویلا نامی مشہور گیم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے کھیلنے والوں کی تعداد امریکہ میں موجود اصل کسانوں کی تعداد سے تجاوز کرچکی ہے۔ جبکہ فارم ویلا جیسے سینکڑوں گیم فیس پر ہر روز لاکھوں لوگ کھیلتے ہیں۔ اس لئے کمائی کا ایک ہدف ویڈیو گیم کے شائقین ہیں جو گیمز میں بہت ہی اعلی مرحلوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے Appsموجود ہیں جو ان مراحل تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ پوائنٹس جمع کرنا یا نئے مراحل تک رسائی وغیرہ مگر یہ سب مفت نہیں۔ آپ کو فیس بک کے پیسوں facebook credit سے ادائیگی کرنی ہوگی۔ ا س کرنسی کی حقیقی قیمت ہے جو ہر Appیا گیم یا پھر ملک کے حساب سے مختلف ہے… بہت سے صارفین کسی گیم کے آخری مرحلے تک پہنچنے کے لیے رقم ادا کرتے ہیں۔
چنانچہ نظام جس قدر سمجھدار ہوگا اور جس قدر وہ سوشل واقعات اور انسانی تعلقات کو سمجھنے کے قابل ہوگا اتنا ہی وہ بیش قیمت معلومات پیش کرنے کے قابل ہوگا جن سے استفادہ کرتے ہوئے کامیاب اشتہاری مہمیں چلائی جاسکتی ہیں اور منافع کمایا جاسکتا ہے۔ فیس بک آپ کی ذاتی معلومات کسی تیسرے فریق کو فروخت نہیں کرتا مگر آپ کے بارے میں بہت کچھ جمع کرتا ہے۔ تجربے کے طور پر آسٹریلیا کے ایک نوجوان نے فیس بک پر ایک نیا اکاؤنٹ بنایا اور اسے صرف ایک ہفتے تک استعمال کیا پھر فیس بک سے اپنے ڈیٹا کا مطالبہ کیا جو 1112 صفحات پر چھاپا گیا… ذرا سوچیں سالوں کے استعمال سے وہ آپ کے بارے میں کیا کچھ نہیں جمع کرے گا؟
فیس بک کا یہ سمجھدار اور ذہین نظام پیش گوئیوں سمیت پسند نا پسند کو بھی مربوط کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فیس بک نے ایک پلگ ان فراہم کررکھا ہے جس کے ذریعے ویب سائٹ مالکان اپنے صارفین کو ویب سائٹ پر رجسٹریشن کرائے بغیر ان کے فیس بک اکائونٹ کی مدد سے لاگ ان کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ پلگ اِن لاکھوں ویب سائٹ پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس لئے جب آپ اس کے ذریعے اپنی پسند کی موسیقی کی ویب سائٹ پر لاگ اِن ہوتے ہیں، ایک خاص نوعیت کی موسیقی ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، پلے لسٹ بناتے ہیں، اور کچھ موسیقی براہِ راست سنتے ہیں، یہ ساری حرکتیں فیس بک نوٹ کرتا ہے اور آپ کو اشتہارات دِکھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نوٹ کریں کہ چاہے آپ فیس بک پر براہِ راست موجود بھی نہ ہوں!
ایک اور مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ آپ ایک اسٹیٹس لکھتے ہیں کہ آپ اپنے دوستوں کے ساتھ فلاں ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھانے گئے، محض اس ایک اسٹیٹس سے آپ کے بارے میں بعض مفید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں، جیسے پسندیدہ کھانا، آپ کے دوپہر کے کھانے کا مناسب ترین وقت، ہوٹل کو دیکھتے ہوئے آمدنی کا اندازہ، بار بار باہر جاکر کھانا، پسندیدہ ہوٹل وغیرہ۔
اب اگر کوئی حریف ہوٹل فیس بک پر اشتہاری مہم چلاتا ہے تو قوی امکان ہے کہ اس کے اشتہارات آپ کو نظر آئیں گے کیونکہ آپ گھر سے باہر کھانا پسند کرتے ہیں، آپ کو مچھلیاں زیادہ پسند ہیں، آپ کو ایک مخصوص طرح کے ہوٹل پسند ہیں، لنچ کے لیے آپ زیادہ دُور تک سفر کرنا پسند نہیں کرتے اور عام طور پر آپ فیملی کی بجائے دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح آئے روز آپ اسٹیٹس اپ ڈیٹس، تبصروں، تصاویر، لائکس اور ان گنت مختلف طریقوں سے اپنے بارے میں معلومات کا خزانہ ندانستہ طور پر فیس بک کے حوالے کررہے ہوتے ہیں جس کا وہ خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہاں فائدہ اٹھاتے وقت یہ بات ضرور دھیان میں رکھی جاتی ہے کہ آپ کی فراہم کردہ معلومات کسی غلط مقصد کے لئے استعمال نہ ہو۔
شاید ٹائم میگزین نے مارک زکربرگ کی شخصیت کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں اس لیے شامل کیا تھا کیونکہ وہ کرہ ارض پر 955 ملین انسانوں کی تفصیلاتِ زندگی پر کسی جاسوس کی طرح گہری نظر رکھتا ہے۔کوئی جاسوس ایجنسی شاید آپ کے بارے میں اتنا نہ جانتی ہو جتنا کہ فیس بک جانتا ہے۔ اس کے پاس معلومات کا ایسا خزانہ ہے جو کہ امریکی خفیہ ایجنسی تو کیا ، طاقتور ترین ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم تک کی رسائی نہیں ہوتی!
آخر میں بتاتے چلیں کہ کمپنی کی آمدنی اس سال کے پہلے کوارٹر میں 205 ملین ڈالر رہی جبکہ اشتہارات کی فروخت میں 45% فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جو ایک ارب ڈالر سے متجاوز ہے، تاہم یہ نتائج گزشتہ سال کے پہلے کوارٹر کے نتائج سے کم ہیں، توقع ہے کہ اس سال کے اختتام تک فیس بک کی کْل آمدنی 6 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
اس لئے اگلی بار جب آپ فیس بک استعمال کرنے بیٹھیں تو یہ خیال کرلیجئے گا کہ آپ فیس بک کیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہیں۔ آپ کا فیس بک پر گزارا ہر لمحہ فیس بک کیلئے کمائی کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کی سروسز کو مفت سمجھ کر احسان مند ہونے کی بجائے، اب آپ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ فیس بک آپ کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے‘‘۔
(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ ستمبر 2012 میں شائع ہوئی)
you are doing best jobs, carry on
its very informative…………….kep it up