گوگل آپ کی لوکیشن جانتا ہے، چاہے موبائل میں سم نہ ہو تب بھی

یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہوگی کہ اسمارٹ فون آپ کے بارے میں جانتا ہے کہ آپ کس مقام پر ہیں لیکن اگر آپ فون کی لوکیشن سروسز بند کردیں، ایسی کوئی ایپ استعمال نہ کریں، یہاں تک کہ سم بھی نہ ڈالیں تو؟ آپ چاہے جتنی احتیاط کرلیں، اگر آپ کا اسمارٹ فون اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم چلا رہا ہے تو وہ آپ کی لوکیشن کے بارے میں معلومات جمع کر رہا ہے اور جیسے ہی آپ انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہوں گے، یہ معلومات گوگل کو بھیج دے گا۔

یہ انکشاف ‘کوارٹز‘ نامی ایک ویب سائٹ نے کیا ہے جس کے مطابق 2017ء کے اوائل سے اینڈرائیڈ فونز قریبی ترین سیلولر ٹاور ایڈریس کا پتہ نوٹ کر رہے ہیں، چاہے لوکیشن سروسز بند ہی کیوں نہ ہو اور پھر جیسے ہی انہیں انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہونے کا موقع ملتا ہے، یہ ڈیٹا گوگل کو بھیج رہے ہیں۔ نتیجتاً گوگل صارف کی موجودگی اور حرکات کے بارے میں ڈیٹا تک رسائی رکھتا ہے ۔

گوگل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سیلولر ٹاور کے پتے گوگل کو وہ معلومات بھیجتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ گزشتہ 11 ماہ سے اینڈرائیڈ فونز پر نوٹیفکیشن اور پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ نہ ہی اس معلومات کو کہیں استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی محفوظ رکھا گیا ہے۔ بلکہ گوگل اب ان اقدامات کا خاتمہ کر رہا ہے اور نومبر کے اختتام تک اینڈرائیڈ فونز سیل ٹاور لوکیشن گوگل کو نہیں بھیجیں گے ۔ "ہم نے رواں سال جنوری میں سیل آئی ڈی کوڈز کو استعمال کرنے کا آغاز کیا تھا تاکہ پیغامات کی فراہمی کی رفتار اور کارکردگی کو بہتر بنایا جائے البتہ ہم نے سیل آئی ڈی کو کبھی اپنے نیٹ ورک سسٹم میں شامل نہیں کیا، اس لیے یہ ڈیٹا فوری طور پر تلف کردیا جاتا تھا ۔”

یہ واضح نہیں ہے کہ سیل ٹاور کے ایڈریسز کس طرح ڈیٹا اسٹرنگ کے طور پر ارسال کیے گئے، جس نے مخصوص سیل ٹاور کی شناخت کی اور اس کے ذریعے پیغامات کی فراہمی کو بہتر بنایا ؟

رپورٹ کے مطابق ایک واحد ٹاور سے ملنے والی معلومات یہ بتا سکتی ہے کہ موبائل ڈیوائس کس جگہ موجود ہے جبکہ متعدد ٹاورز کی مدد سے چوتھائی میل قطر کے اندر اس مقام کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے بلکہ شہروں میں تو یہ اور زیادہ آسان ہے کیونکہ یہاں موبائل ٹاورز زیادہ ہوتے۔

یہ اقدامات ان افراد کے لیے پریشان کن ہوں گے جنہیں یہ پسند نہیں کہ انہیں ٹریک کیا جائے، جیسا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیدار یا پھر گھریلو تشدد کے شکار افراد، بالخصوص خواتین۔ گو کہ گوگل کوبھیجا گیا یہ ڈیٹا انکرپٹڈ ہوتا ہے لیکن اسپائی ویئر کے ذریعے یا پھر ہیکنگ کے مختلف طریقوں سے، کسی بھی طرح یہ تیسرے فریق کے ہاتھ لگنے کا خدشہ بہرحال موجود ہے۔

یہ انکشاف عین اس وقت ہوا ہے جب قانون ساز اداروں کی طرف سے گوگل اور دیگر انٹرنیٹ کمپنیوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے کہ وہ صارفین کے نجی ڈیٹا کو استعمال کر رہے ہیں، جیسا کہ سیاسی نظریات سے لے کر ان کی خریداری کے مقامات لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ معلومات ہی ان اداروں کی کامیابی کی بنیاد ہے کیونکہ وہ اسی کے ذریعے اشتہارات پیش کرتے ہیں اور کماتے ہیں۔

رپورٹ میں اہم انکشاف یہ ہے کہ چاہے اینڈرائیڈ فون کو فیکٹری ڈیفالٹ سیٹنگ پر کردیا جائے، اس میں سے لوکیشن سروسز استعمال کرنے والی تمام ایپس نکال دی جائے، چاہے اس میں سم نہ ہو ، جب بھی ڈیوائس وائی فائی سے یا نیٹ ورک سے کنیکٹ ہوگا ، تب یہ قریبی سیل ٹاور ایڈریس گوگل کو بھیجے گا۔

گوگللوکیشن