بہت سے لوگ پہلے سے جانتے ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا پر اپنی حساس اور نجی معلومات فراہم کرنے والی تفصیلات پوسٹ نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی چیزوں میں پتے کے ساتھ خطوط یا جہاز کے ٹکٹ یا ملازمت ملنے کا لیٹر وغیرہ خاص طور پر نمایا ں ہیں۔ دھوکے باز ان تفصیلات کو بہت آسانی کے ساتھ آپ کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اپنا پاس ورڈ تو کسی بھی صورت کسی کو نہیں بتانا چاہئے۔ چاہے آپ کا پاس ورڈ کتنا ہی پرانا ہوچکا ہو اور آپ اسے استعمال کرنا بھی بند کرچکے ہوں۔ اکثر آپ کا پرانا پاس ورڈ آپ کے نئے ممکنہ پاس ورڈ کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی تصاویر جن میں کوئی نجی معلومات نہ ہوں ، سوشل میڈیا پر شیئر کرنا محفوظ سمجھتے ہوں۔ اگر ایسا ہی ہے کہ آپ بھی دنیا کے کروڑوں دوسرے لوگوں کی طرح ہی سوچتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امن کے نشان، یعنی دو انگلیوں سے وکٹری کے نشان یا پورے ہاتھ والی تصاویر پوسٹ کرنا بھی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے۔اب ہیکر اس قابل ہو چکے ہیں کہ ایسی کسی تصویر سے آپ کے فنگر پرنٹ حاصل کرسکیں جو کہ آپ کے فون، کمپیوٹر یا ٹیبلٹ کے لیے چابی کی حیثیت رکھتا ہے۔
جاپان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انفارمیٹکس (این آئی آئی) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تین میٹر کے فاصلے سے لی گئی تصاویر میں سے بغیر کوئی جدید یا نئی ٹیکنالوجی استعمال کیے، فنگرپرنٹ آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔یہ پہلی بار نہیں کہ بائیو میٹرک سکیوریٹی نظام پر سوال اٹھے ہوں۔ سال 2015 میں جان ”سٹار بگ“ کریسلر نام کے ایک ہیکر نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی آنکھ کی پتلی کے نشانات کامیابی سے ان کی تصویر سے اخذ کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔آنکھ کی پتلی کے نشانات بھی انگلیوں کے نشانات کی طرح ہر انسان میں منفرد ہوتے ہیں اور انہیں کسی شخص کو شناخت کرنے کے لئے کئی برسوں سے استعمال کیا جارہا ہے۔
اگر آپ کے ای میل اکاؤنٹ یا موبائل فون کا پاس ورڈ کسی کو معلوم ہوجائے تو آپ پاس ورڈ تبدیل کرکے اپنے ای میل اکاؤنٹ یا موبائل فون کو دوبارہ محفوظ بنا سکتے ہیں۔ لیکن بائیو میٹرکس یعنی انگلیوں یا آنکھ کی پتلی کے نشانات کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اس لئے بائیو میٹرک انفارمیشن کے عام ہوجانے سے آپ کی سکیوریٹی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔ ایک بائیو میٹرک کمپنی NuData Security میں کام کرنے والے روبرٹ کیپس کا کہنا ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی جاتے ہیں، وہاں پر اپنا بائیومیٹرک ڈیٹا کو چھوڑ دیتے ہیں۔ جس چیز کو ہم چھوتے ہیں، اس پر ہمارے فنگرپرنٹ ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا پر سیلفی پوسٹ کرنا،دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ ویڈیو شیئر کرنا یہ سب آپ کی بائیو میٹرک معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایک بار بائیومیٹرک ڈیٹا چرا کر ڈارک ویب پر فروخت کر دیا جائے تو اس صارف کی موت تک اس کے اکاؤنٹ تک رسائی کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
ایچیزین کی ٹیم نے صرف مسئلہ ہی نہیں، اس کا حل بھی تلاش کیا ہے۔ انہوں نے ٹائٹینیم آکسائیڈ کی مدد سے ایک شفاف فلم تیار کی ہے جسے اگر انگلیوں کے پوروں پر لگایا جائے تو ہیکر تصویر سے فنگر پرنٹ نہیں حاصل کرسکیں گے۔ تاہم اس حفاظتی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر تیار ہونے میں 2 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 125 میں شائع ہوئی