مارک ٹوئن کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہے اور انھیں یہ سمجھانا مشکل کہ انھیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔‘‘ انٹرنیٹ پر دوسروں کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ فوٹو شاپ کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور آج تک جاری ہے۔ ہر سال ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر جو جعلی ہوتی ہیں انتہائی تیزی کے ساتھ وائرل ہو جاتی ہیں کیونکہ ان میں منظر ہی کچھ ایسا انوکھا ہوتا ہے۔ 2016 میں ایسی ہی جعلی وائرل ہونے والی چند تصاویر اور ان کی حقیقی تصاویر پر آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سات منہ والا سانپ
اگر آپ اس تصویر کو غور سے دیکھیں تو باآسانی اندازا کر سکتے ہیں کہ اس میں منہ کو صرف کاپی پیسٹ کیا گیا ہے۔ تمام منہ ایک ہی رُخ پر ایک ہی انداز میں ہیں۔ یہ ایک انتہائی غیر معیاری فوٹو شاپ ہونے کے باوجود انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی۔
پیوٹن ریچھ کی سواری کرتے ہوئے
روسی صدر پیوٹن کی طاقت کا سب کو اندازا ہے اس لیے جب ان کی ریچھ پر سواری کرتے ہوئے تصویر سامنے آئی تو سب نے فوراً ہی اس کا یقین کر لیا۔ حالانکہ یہ پیوٹن کی 2009 کی تصویر ہے جب وہ سائبریا میں گھوڑے کی سواری کر رہے تھے۔
جناتی آکٹوپس
یہ بھی دراصل فوٹو شاپ کا ہی کرشمہ ہے۔ کسی نے ساحل پر پڑی مردہ وہیل مچھلی کی جگہ ایک جناتی آکٹوپس فٹ کر دیا اور دنیا پاگل ہو گئی۔
2011 کی یہ تصویر دراصل چلی کے ایک ساحل کی ہے۔
عنابی درخت
لیجیے اب اس تصویر کے بارے میں ہم کیا رائے دیں، کتنی آسانی سے اس میں رنگ بھرنے کے بعد اسے ایک وائرل تصویر بنا دیا گیا۔
دھنکی سانپ
یہ سانپ تو سات سروں والے سانپ سے بھی شہرت میں آگے نکل گیا۔ سات سروں والے سانپ کو دیکھ کر تو لوگ دعائیں کر رہے تھے کہ کاش ہم اس سے محفوظ ہی رہیں لیکن یہ دھنکی سانپ دیکھ تو سب کو اس پر خوب پیار آیا۔
چین میں دنیا کا سب سے بڑا ٹریفک جام
چین کی چونکہ آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اس لیے ظاہر ہے سب سے بڑا ٹریفک جام بھی چین میں ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس تصویر پر تو سوال اُٹھانے والا بے وقوف ہی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تصویر اتنی وائرل ہوئی۔
حالانکہ یہ حقیقت میں یہ لاس اینجلس کیلیفورنیا کی فری وے ہے جسے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کافی ساری گاڑیاں ضرور موجود ہیں لیکن یہ ٹریفک جام نہیں ہے۔
نیپال زلزلہ
2015 میں نیپال میں آنے والے زلزلے کے بعد ننھے بچوں کی یہ تصویر انتہائی وائرل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ڈھائی سالہ بچی خوفزدہ ہو کر اپنے چار سالہ بھائی سے لپٹی ہے جو اسے محفوظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جبکہ اس تصویر کو بنانے والے فوٹو گرافر Na Son Nguyen نے بتایا کہ دراصل اس نے یہ تصویر 2007 میں ویتنام میں بنائی تھی اور یہ چھوٹی بچی اجنبی یعنی فوٹو گرافر کو دیکھ کر بھائی سے جا لپٹی۔
انٹرنیٹ پر اس تصویر کو کبھی شام اور کبھی برما کے بچوں پر ہونے والے ظلم کا نام دے کر لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا۔
یتیم شامی بچہ
اس تصویر کو کون بھول سکتا ہے جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک شامی بچہ اپنی ماں باپ کی قبروں کے بیچ میں سو رہا ہے۔ اس تصویر نے تو مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور اسے سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیا گیا۔
بعد ازاں بات کھلی کہ دراصل سعودی عرب میں یہ کسی پروجیکٹ کے تحت فوٹو گرافی کی گئی تھی۔