آج دنیا میں کامیاب لوگ سمجھنے والے اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں انتہائی ناکام لوگ تھے لیکن کامیابی نے ان کے قدم اسی لیے چومے کہ انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔
ہر کامیاب کتاب، سمینار یا زندگی یہ سبق دیتی ہے کہ ناکامی محض کامیابی کی طرف بڑھنے کی پیش رفت ہے۔ اور یقینا حقیقی زندگی کے اُتار چڑھاؤ انہی بنیادی اصولوں پر عمل پیرانظر آتے ہیں۔ تاہم بظاہر صرف اس ایک جملے کی معلومات ایسی سطحی بات ہے جو اس گہرائی کو سمجھنے میں مکمل طور پر مدد فراہم نہیں کرتی۔ بالکل اسی طرح جیسے پانی کو ایک گلاس میں دیکھنا اور دریا میں دیکھنا دو مختلف باتیں ہیں۔ جب معلومات کا اصل زندگی پر اطلاق ہوتا ہے تو تب وہ ایک طاقت بن جاتی ہے۔ اس معاملے میں اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ یہ دیکھنے کے قابل ہونا کہ ناکامی دراصل کیا شے ہے، ناکامی ایک فیڈ بیک ہے۔
ہم اس فیڈ بیک سے مختلف مفید نتائج حاصل کر سکتے ہیں اور اس طرح ہم کامیابی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔ تاہم دیگر کئی باتوں کی طرح یہ بات بھی جتنی پیچیدہ ہے سننے میں اتنی آسان لگتی ہے۔ ہر شخص کو روز مرّہ کی زندگی میں کسی نہ کسی ڈرامے کا سامنا ہوتا ہے اور اس جوار بھاٹے میں بنیادی قواعد و اسباق کو بھول جانا بڑا آسان ہوتا ہے اور جب کوئی آئیڈیا، کوئی اقدام یا کوئی بھی کام کارآمد نہ ہو، خصوصاً کاروبار میں، تو ناکامی کا احساس ہوتا ہے۔
ناکامی ہم پر حملہ آور ہو سکتی ہے، جب کسی کام کے آغاز میں ہم بہت سارا پیسا، دماغی یا جسمانی مشقت لگاتے ہیں اور وہ ناکامی کی طرف گامزن ہو جائے تو خود میں نااُمیدی محسوس کرنا بنیادی طور پر پہلا فطری عمل ہوتا ہے۔ ’’ناکامی فیڈ بیک کے برابر ہے‘‘ یہ وہ جادوائی منتر ہے جو کامیاب گُرو یعنی کامیاب لوگ دُہراتے رہتے ہیں مگر یہ منتر زبان سے نہیں عمل سے ادا ہوتا ہے۔ لیکن اس قسم کی ناکامی کے بعد ہم ان جادوئی الفاظ پر بالکل دھیان نہیں دیتے۔ اور یہ بات قابلِ فہم بھی ہے۔ مگر ہم یہاں کچھ حقیقی زندگی کی مثالیں پیش کر رہے ہیں یہ کامیاب لوگ ثابت کریں گے کہ یہی جادوئی الفاظ درحقیقت کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہم ٹیکنالوجی کی دنیا سے منسلک پانچ عظیم کاروباری شخصیات کی ناکامیوں کا جائزہ لیں گے جن کی کل آمدنی نوے بلین ڈالر ہے (پاکستانی کرنسی میں تقریباً نوے ارب سے زائد)۔ ان شخصیات نے ابتدائی ناکامیوںپر اپنی شکست تسلیم نہیں کی، اس کی بجائے انھوں نے اپنی ناکامیوں کو انجوائے کیا اور انھیں ایک اہم سبق کے طور پر سراہا۔ وہ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو تسلیم کرنے میں خوف زدہ نہیں ہوئے بلکہ ناکامیوں کی صورت میں ملنے والے فیڈ بیک سے دنیا میں خود کو منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کامیاب لوگ کہلاتے ہیں بلکہ کامیاب ترین۔
نک ووڈ مین (Nick Woodman)
کمپنی: فن بگ (FunBug)
وجہ شہرت: پہننے کے قابل کیمروں کی تخلیق
آمدن : 1.75 بلین ڈالر
نِک کالج کے دِنوں میں ایک اوسط درجے کا طالب علم اور ایک پُرجوش سرفر تھا۔ یہ ایک ایسا مشغلہ تھا جو اس کی تعلیمی سرگرمیوں میں رُکاوٹ بنتا تھا۔ وہ پیدائشی کھرب پتی نہیں تھا۔ آج کی کامیاب اور مقبول برانڈ پہننے والا کیمرہ GoPro کی تخلیق سے قبل سن 2000 میں وقتی طور پر اُبھرنے والی ویب سائٹ crazed ڈاٹ کام کے دوران وہ دو ابتدائی ان لائن پروجیکٹس میں بُری طرح ناکام ہو گیا تھا۔
ناکامی:
سب سے پہلے اس نے ایک ای کامرس ویب سائٹ Empowerall ڈاٹ کام تخلیق کی، جس کا محور نوجوان آبادی تھی۔ یہ ویب سائٹ سستی الیکٹرانک اشیا فروخت کرتی تھی۔ تاہم کمپنی کوئی منافع نہ کما سکی، لہٰذا اسے جلد ہی بند کر دیا گیا۔ مگر یہ ناکامی مستقل کے اس ارب پتی کو کاروباری میدان سے نکال نہیں سکی۔ اس ناکامی نے اسے مزید محنت پر مہمیز کیا۔ لہٰذا 1999 میں اس نے فن بگ (FunBug) نامی ایک آن لائن مارکیٹنگ کمپنی قائم کی۔ یہ ویب سائٹ صارفین کو گھڑ دوڑ کی انعامی رقم میں حصہ دار بننے پر کیش پرائز جینے کے مواقعے فراہم کرتی تھی۔ یعنی اس ویب سائٹ کا طریقہ کار کھیل کے ذریعے مارکیٹنگ کرنا تھا۔ یہاں تک کہ وہ مختلف سرمایہ کاروں سے 3.9 ملین ڈالر کے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کمپنی ترقی کر رہی تھی، مگر 2001 تک نِک نے ایک بار پھر اپنی ناکامی کو تسلیم کیا۔
وہ جن کمپنیوں سے مارکیٹنگ کر رہا تھا ان کے ذریعے وہ اپنے صارفین بنانے میں ناکام رہا تھا، جن کی بنیاد پر منافع حاصل کیا جا سکتا تھا۔ یہاں دوسری بار ناکامی ہوئی اور چار ملین ڈالر کے نقصان کے بارے میں اس نے مشہور میگزینForbes میں کچھ یوں کہا:
’’میرا مطلب ہے ناکامی کوئی بھی پسند نہیں کرتا، مگر سب سے بری چیز یہ ہوئی تھی کہ میں نے اپنے سرمایہ کاروں کا پیسا کھو دیا تھا۔ اور یہ وہ لوگ تھے جو اس جوان لڑکے پر اعتماد کرتے تھے جو اپنے اس آئیڈیے کے بارے میں پُرجوش تھا۔ آپ اس سوال سے آغاز کر سکتے ہیں کہ کیا میرے آئیڈیاز واقعی اچھے ہوتے ہیں؟‘‘
سبق:
دوسری کمپنی ڈوبنے کے بعد نِک سرفنگ کی ایک لمبی سیر کو چلا گیا۔ وہاں اس نے اپنے ذہن سے ناکامی اور مایوسی کی تمام تلچھٹوں کو صاف کیا۔ واپس آ کر اس نے کیمرے کے لیے ایک نئی قسم GoPro پر کام شروع کیا جنھیں پہنا جا سکتا تھا یا جو ایتھلیٹس اور مہم جُو لوگ استعمال کر سکتے تھے۔
’’مجھے خدشات تھے کہ اگر میں نے سخت محنت نہ کی تو FunBug کی طرح GoPro کا پروجیکٹ بھی رائیگاں جائے گا۔ اس بات نے میرے اندر ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ میں خوف زدہ تھا کہ کہیں دوبارہ ناکام نہ ہو جاؤں، کیوں کہ میں نے مکمل طور پر کامیابی سے اپنی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔‘‘
مسلسل ناکامیوں کا شکار رہنے والے نِک ووڈ کو GoPro نے دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی افراد کی صف میں لا کھڑا کیا اور وہ امریکا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی کیمرہ کمپنی کا مالک بن گیا۔
بِل گیٹس (Bill Gates)
پہلی کمپنی: Traf-O-Data
وجہ شہرت: ونڈوز، مائیکرو سافٹ
آمدن: 72.7بلین ڈالر
کامیاب لوگ کے الفاظ سنتے ہی دماغ میں سب سے بل گیٹس کا نام اُبھرتا ہے۔ ظاہر ہے وہ آج دنیا کے امیرترین شخص ہیں تو ان سے زیادہ کامیاب کون ہوا۔
Xanadu 2.0 جسے بل گیٹس ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک کمپیوٹرائزڈ رہائش گاہ ہے جس میں مہمانوں کو ایک مخصوص پِن فراہم کی جاتی ہے جس سے ہر مہمان اپنی مرضی سے کسی بھی وقت درجہ حرارت، موسیقی اور روشنی کو اپنی پسند کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے۔ایسے گھر کا مالک اور دنیا کا امیر ترین آدمی بننے سے قبل بل گیٹس ایک ناکام کاروباری شخص تھا۔
ناکامی:
اس کی پہلی کمپنی Traf-O-Dataتھی، جس کا مقصد سڑکوں پر موجود ٹریفک کے کاؤنٹرز پر موجودخام مواد کو پڑھنا اور ٹریفک انجینئرز کے لیے رپورٹ تیار کرنا تھا۔ اس طرح کمپنی ٹریفک کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے سڑکوں کی بھیڑ ختم کرنے میں مدد فراہم کرتی۔
کمپنی کی پروڈکٹ Traf-O-Data 8008 ایک ایسی ڈیوائس تھی جو ٹریفک کے ٹیپ کو پڑھ اور ڈیٹا کو پروسیس کر سکتی تھی۔ ابتدا میں انھوں نے مقامی قصبے کو پروسیسنگ سروس فروخت کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کا پہلا مظاہرہ ہی ناکام ہو گیا۔ کیوں کہ مشین کام نہیں کر سکی تھی۔ بل گیٹس یہ دھچکا کبھی نہیں بھولا۔
سبق:
یہ تجربہ درحقیقت کیا تھا اور اسے بل گیٹس نے کس نظریے سے دیکھا، اس کا خلاصہ اس کے پارٹنر پاؤل ایلن (Paull Allen) نے کچھ یوں پیش کیا:
’’اگرچہ Traf-O-Data کوئی بڑی کامیابی نہیں تھی، یہ اصل میں ہماری ایک طرح کی ٹریننگ تھی کہ چند سالوں بعد ہم مائیکروسافٹ کی پہلی پروڈکٹ بنا سکیں۔‘‘
اور وہ ہنسی خوشی اپنی کاروباری زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے رہے۔ وہ بڑی لگن سے محنت کرتے رہے اور آخر کار مائیکروسافٹ دنیا کی سب سے بڑی پرسنل کمپیوٹر سافٹ ویئر کمپنی بن کر اُبھری۔
اس طرح یہ جان کر ہم خود کو مایوسی کی فکروں سے دُور ہلکا پھلکا محسوس کر سکتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین انسان بھی کاروبار میں بڑی غلطیاں کر سکتے ہیں۔
سرجیمس ڈائی سن (James Dyson)
کمپنی: ڈائی سن
آمدن: تین بلین ڈالر
اکثر لوگ تخلیق کاروں کے بارے میں سوچتے ہیں کہ جیسے وہ پیدائشی موجد ہوتے ہیں، ان میں کچھ انوکھی قسم کی قابلیت و ذہانت ودیعت کردہ ہوتی ہے۔ ان کی جینیاتی بناوٹ ہم جیسے عام انسانوں سے ضرورمختلف ہوتی ہو گی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ موجد مصائب و مسائل سے گزر کر تخلیق پاتے ہیں۔ موجد زندگی کی چکی میں تجربوں سے پِسے ہوتے ہیں۔
سرجیمز ڈائی سن کی کمپنی پچاس سے زائد ممالک میں بغیر بیگ والے ویکیوم کلینرز فروخت کرتی ہے اور دنیا بھر میں اپنی کامیابی کا لوہا منوا چکی ہے۔ اس کمپنی نے انھیں کھرب پتی بنا دیا۔ تاہم اس کامیاب ڈیزائن تک پہنچنے سے قبل انھیں متعدد بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ناکامی:
حقیقت یہ ہے کہ اپنے اس کامیاب ڈیزائن سے قبل انھوں نے ویکیوم کے 5127 مختلف نمونے تیار کیے تھے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو ’’ناکام کوشش‘‘ خیال کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے 1993 میں اپنے کامیاب ڈیزائن DC01 کی مارکیٹ میں فروخت سے قبل اپنی پروڈکٹ کو بہترین بنانے کے لیے پندرہ سال کا طویل عرصہ خرچ کیا تھا۔ یہ ویکیوم گردشی تقسیم (cyclonic separation) کے پیٹنٹ (patent) اصولوں پر کام کرتا ہے اس لیے اس میں بیگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس ایجاد پر بہت وقت صرف ہوا۔
’’ایسے اَن گنت مواقع آتے ہیں جب موجد کسی آئیڈیے کو ترک کر سکتا ہے اور ہمت ہار سکتا ہے۔‘‘ جیمز ڈائی سن اپنے تجربے کے بارے میں کچھ یوں گویا ہوئے
’’جب میں نے اپنی تخلیق کا پندرہواں ڈیزائن تیار کیا تب میرا تیسرا بیٹا پیدا ہو چکا تھا۔ جب نمونہ نمبر 2627 تیار ہوا تب میں اور میری بیوی اپنی ایک ایک پائی گِن رہے تھے۔ نمونہ نمبر 3727 کے وقت میری بیوی اضافی آمدنی کے حصول کے لیے آرٹ پڑھا رہی تھی۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ مگر ہر ناکامی مجھے مسئلہ حل کرنے کے قریب تر لے گئی۔‘‘
ایسی ناکامیوں اور مشکلات کے باوجود مضبوطی سے اپنے کام میں ڈٹے رہنے کے بعد ڈائی سن ارب پتی کیوں نہ بنتا؟ قطع نظر اس کے کہ وہ کوئی دوسرا کاروبار بھی شروع کرتا، ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ وہ اس میں ضرور کامیاب ہوتا چناں چہ کامیابی وہ شے ہے جو کسی بھی کام میں صرف لگن سے حاصل ہوتی ہے۔
سبق:
ہمیں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان میں حقیقی موجد ہی سب سے زیادہ ناکام لوگ ہوتے ہیں۔ ناکامی ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم کچھ نیا تخلیق کر سکتے ہیں۔ مگر حقیقی موجد اسے ’’ناکامی‘‘ بھی نہیں کہتے۔ جیسا کہ اس بارے میں تھامس ایڈیسن کا مشہور مقولہ ہے
’’میں ناکام نہیں ہوا۔ میں نے محض ایسے دس ہزار طریقے معلوم کیے جو کارآمد نہیں تھے۔‘‘
ڈائی سن کمپنی کے مالک سرجیمز ڈائی سن نے کامیابی کے اس راز کو دل سے اپنایا۔
لہٰذا کسی بھی چیز کی ایجاد میں ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی ناکام کاوشوں کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ یہی وہ بات ہے جو آگے یہ طے کرتی ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے یا نہیں۔
اسٹیو جابز (Steve Jobs)
کمپنی: ایپل
آمدن: 10.2 بلین ڈالر
ہم سب اسٹیو جابز کو ایک کاروباری گُرو کے طور پر جانتے ہیں۔ آئی فون، آئی پیڈ، آئی پوڈ یا میک بُک جیسی بہترین فروخت ہونے والی پروڈکٹس کے پیچھے موجود ایک جینیئس کے طور پر مانتے ہیں۔ وہ وقت کا سب سے بااثر کاروباری شخصیت رہا ہے اور اسے ہماری ٹیکنالوجی کی دنیا کی بیداری کے ڈاونچی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
24 فروری 1955ء کیلی فورنیا میں عبدالفتاح جندلی اور جوعین کارول کے ہاں پیدا ہوا۔ دونوں چونکہ شادی شدہ نہیں تھے اس لئے انہیں اپنا بچہ ایڈاپشن کے لئے پیش کرنا پڑا۔ بقول عبدالفتاح کہ جوعین کے گھر والے ان کے اس رشتے سے خوش نہیں تھے لہٰذا انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا۔
اسٹیوجابز کو ایک غریب خاندان پال جابزاور کارلا جابز نے گود لے لیا۔ جابز کی ماں کارلا جابز نے اسے اسکول جانے سے پہلے پڑھنا سکھا دیا تھا لیکن وہ کبھی بھی پڑھائی میں اچھا نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی حقیقی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اچھے کالج میں پڑھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے Reed کالج میں داخل کرایا گیا جس کا خرچہ کارلا اور ان کے شوہر پال جابز بمشکل تمام پورا کرپاتے تھے۔
اسٹیو جابز کا بچپن اور زیادہ تر جوانی کا عرصہ محرومیوں اور ذہنی دبائو کا شکار رہا۔ اسے عدم توجہی کی وجہ سے کالج سے بھی نکال دیا گیا اور وہ دربدر کے دھکے کھانے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے کئی معمولی نوکریاں کیں۔ حتیٰ کہ وہ ہندئوں کے ایک مندر سے مفت کھانا بھی کھاتا رہا۔
1971ء میں اسٹیو جابز کے دوست Bill Fernandez نے اسے اپنے دوست Wozniak سے متعارف کروایا جس نے 1976ء میں تن تنہا Apple 1 کمپیوٹر تیار کرلیا تھا۔ یہی اسٹیو جابز کی ترقی کا آغاز تھا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا اور وہ وقت بھی آگیا جب کوک کی خالی بوتلیں جمع کرکے گزارا کرنے والا امریکا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہوگیا۔
اکتوبر 2003ء میں تشخیص ہوئی کہ اسے کینسر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے ایپل میں اپنے رو زمرہ کے کاموں سے ہاتھ نہیں کھینچا اور بالاآخر 5اکتوبر 2011ء کو اپنے گھر میں اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔ اسٹیو کی پوری زندگی محنت اور مشقت سے بھری پڑی ہے۔ اس نے دنیا کو سکھایا کہ چھوٹے آدمی کو بڑے کام کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ناکامی:
اسٹیو جابز اور اس کے پارٹنر اسٹیو وزنیک (Steve Wozniak) نے ایپل کمپنی میں اپنا پیسا اور وقت صرف کیا جو زیادہ موثر ثابت نہ ہوا اور ان کی بنائی گئی پروڈکٹ کے صرف 175 یونٹس فروخت ہو پائے۔ یہشکست خوردہ ماحول تھا جس نے جابز کو اس کمپنی سے بے دخل کر دیا جو اس نے قائم کی تھی۔
’’ناکامی ایک فیڈ بیک ہے‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جابز نے محنت جاری رکھی اور کچھ ہی عرصے میں ایک اور کمپنی Next قائم کی۔ یہ کمپنی بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ وجہ پروڈکٹ میں ہارڈ ویئر کا مسئلہ تھا۔ آخر کار اس کا سافٹ ویئر ڈویژن ایپل کمپنی کو فروخت کرنا پڑا اور جابز واپس اپنے نقطہ آغاز پر پہنچ گیا۔
سبق:
مگر اس بار مختلف تجربوں سے ایک نئے سانچے میں ڈھل کر، بے شمار ناکامیوں سے لیس جابز اب پہلے کی بہ نسبت کامیابی حاصل کرنے کے لیے زیادہ پُرعزم تھا۔ اور آخر کار اس کا والٹ ڈزنی، ہیولٹ اینڈ پیکارڈ (HP) اور اِنٹل جیسی کمپنی قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا جو ایک زمانے تک راج کرے گی۔
اب ذرا ہم خود سے سوال کریں کہ…
’’اگر اسٹیو ابتدائی ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ اگر اسٹیو جابز اپنے مشن سے کنارہ کشی کر لیتا تو آج دنیا کتنی مختلف ہوتی؟‘‘
رچرڈ برینسن (Richard Branson)
وِرجن گروپ (Virgin Group)
آمدن: 4.6 بلین ڈالر
رچرڈ برینسن کو ’’ناکامی کے اصولوں‘‘ پر یقینا منافع ہوا ہے۔ اس نے اپنے کام کو اس عروج پر پہنچایا جہاں سے وہ دنیا کی مشہور کاروباری شخصیات میں سے ایک بن کر اُبھرا۔ وِرجن کی برانڈز دنیا کی مقبول ترین برانڈز میں سے ایک ہیں جس کا لوگوں پر بہت گہرا تاثر ہے۔ خصوصاً رچرڈ کی مقناطیسی شخصیت اور ٹی وی کے ایڈونچر کی وجہ سے۔
ناکامی:
اگر آپ رچرڈ سے اس کے لڑکپن میں ملتے تو آپ اس کی بعد کی کامیابیوں کا گمان نہیں کر سکتے تھے۔
برینسن مطالعے اور حساب میں کمزور تھا۔ اسے ہائی اسکول سے خارج کر دیا گیا تھا اور وہ یہ بات تسلیم کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ ساری زندگی پڑھنے لکھنے سے معذور (Dyslexia) رہا۔ واقعی اگر ہم قیاس کرتے تو ایک Dyslexia شخص، پوری دنیا کا میڈیا آئی کن اور کھرب پتی عوام دوست انسان کے طور پر ہماری پہلی چوائس میں ہرگز نہیں ہوتا۔
مگر یہ آدمی اپنی درخشاں شخصیت اور 59 سال کی دھوپ میں سنہری ہو جانے والے بالوں کے ساتھ 400 کمپنیوں کا موروثی مالک نہیں تھا۔ اس کی پہلی کاروباری کوشش ایک طلبہ کا رسالہ تھا جو اس نے سولہ برس کی عمر میں شروع کیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس رسالے نے برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کچھ مسائل پیدا کر دیے تھے۔ اپنے رسالے میں veneral بیماریوں کے علاج و ٹوٹکے چھاپنے کے نتیجے میں رچرڈ جیل جاتے جاتے بچا تھا۔
مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اس کی وِرجن ریکارڈ دکانوں کے خرچ و آمدن کے درمیانی مسئلے میں پھنسنے کی وجہ سے وہ دوبارہ سلاخوں کے پیچھے جاتے جاتے بچا۔ اس بار معاملہ اور بھی سنجیدہ تھا، ٹیکس سے بچنے کا معاملہ۔ ایک رات حوالات میں گزارنے کے بعد جب مدعی کو 60,000 پاؤنڈ کی بھاری رقم ادا کی گئی تو اس کی گلوخلاصی ہوئی۔
وہ یاد کرتا ہے کہ اس تجربے کا اس پر بڑا اثر ہوا۔
’’میں نے نے خود سے عہد کیا کہ میں آیندہ ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جس کی وجہ سے مجھے جیل جانا پڑے اور نہ کوئی اس قسم کا کاروبار جس سے مجھے خفت کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘
تاہم اس کی پوری زندگی میں ناکامی کا سفر بھرپور طریقے سے جاری رہا۔ وِرجن کولا (جس کے لیے اس نے ٹائمز اسکوائر پر ایک ٹینک بھی چلایا تھا)، وِرجن وائی، وِرجن ڈیجیٹل سب ناکام ہو گئے۔ اور ایک طویل عرصے تک یہ فہرست چلتی رہی۔
سبق:
ہمارا خیال ہے کہ برینسن کو کاروباری حلقے کا بادشاہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی تعریف کے مطابق ’’ناکامی سے سیکھیں۔ اگر آپ تاجر ہیں اور آپ کا پہلا کاروبار کامیاب نہیں ہوا تو اس حلقے میں خوش آمدید۔‘‘
خلاصہ کلام
’’ناکامی بہترین اُستاد ہے۔‘‘
درحقیقت زیادہ تر لوگ جو ہم رسالے Forbes کے دنیا کے امیرترین لوگوں کی فہرست میں دیکھتے ہیں انھیں یہاں تک پہنچنے کے لیے رِسک لینے پڑتے ہیں۔ جس کا مطلب تقریباً ناکامی ہوتا ہے۔ ہم بڑی آسانی سے امیروں پر یہ فقرے چست کر دیتے ہیں کہ یہ انھوں نے آسانی سے حاصل کر لیا ہو گا… یہ ان کی والدین کی وجہ سے ہے… یہ خوش قسمت تھے… یہ غالباً خفیہ تنظیمیں یا دنیا میں تبدیلی لانے والے مافیا کے کام ہیں… یا شاید کسی غیر زمینی مخلوق کا قبضہ ہے وغیرہ۔
ہمارے پاس ایسی درجنوں وجوہات ایجاد کر لی جائیں گی جن سے کسی نہ کسی طرح ہم ایسے لوگوں کی کامیابی کو ’’خوش قسمتی‘‘ یا ’’معلومات کے خصوصی حصول‘‘ سے منسلک کر دیتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سو امیر ترین افراد میں سے 73 نے یہ مقام اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی سازش نہیں ہے بلکہ یہ ایک نشریاتی و اشاعتی ادارے Bloomberg کی پیش کردہ حقیقت ہے۔
یہ خوددار (Self made) ارب پتی افراد وہ تمام بنیادی اور اہم معلومات اپنی زندگیوں میں شامل کرتے ہیں جو باقی تمام لوگوں کو بھی حاصل کرنا چاہیے۔ ان لوگوں نے وہ سب کیا جس کے بارے میں لوگ صرف پڑھتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جاننا اور عمل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں، جبکہ کامیابی اور ناکامی اس درجے مماثل ہیں کہ یہ دونوں چکردار زینے ہیں۔ ایک بار چڑھ گئے تو عملی قوت آپ کو جاری رکھے گی اور اس عمل میں کچھ سرگرانی (dizziness) شامل کر دے گی۔ ہمیں ناکامی کی سیڑھی پر اسے ایک فیڈ بیک کے طور پر دیکھنا چاہیے ورنہ اس کا راستہ سطح سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور یہ ہمیں گہرائی میں اُتارتی جائے گی اور آخر کار ہمیں بالکل برباد کر چھوڑے گی۔
اب ہمیں خود سے ضرور یہ سوال کرنا چاہیے:
’’اگلی بار ناکامی مقدر بنے تو کیا کرنا چاہیے… شکست تسلیم کرنی چاہیے یا اگلا کھرب پتی بننا ہے؟‘‘
Assalam o alaikum,
is book ka name kia hai?
بہت اعلی مضمون تھا ۔۔۔۔ مگر ایک بات کامن سی ہے ان سب میں کہ سب پڑھے لکھے تھے ۔۔۔۔ اور یہی بات آج کل کے نوجوان کو سمجھ نہیں آتی کہ پڑھائی وہ نہیں ہے جو ہم کر رہے ہیں۔
boht Aaala
I am happy to read this article. I should say please please stop posting about politics and those …. stuff. Do something like this for youth. For Us.
This is a good article. Appreciate your efforts.
بہت خوب جناب.
boht Khooubsurat Shukriyaa is tehreeer k liye…..