انٹرنیٹ اب دنیا کی اکثریت آبادی کی پہنچ میں ہے لیکن اب بھی بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں انٹرنیٹ دستیاب نہیں۔ اور اگر ہے تو بہت مہنگا۔ ایسے علاقوں میں رہنے والے لوگوں تک انٹرنیٹ پہنچانے کےلیے فیس بک اور گوگل جیسی کمپنیاں دن رات کام کر رہی ہیں۔ اس سے اُن کا مقصد آخرت میں ثواب کا حصول نہیں بلکہ اشتہارات دکھانے کےلیے نئے صارفین تلاش کرنا ہے۔
فیس بک نے بھارت میں زیادہ سے زیادہ عوام تک انٹرنیٹ پہنچانے کا منصوبہ شروع کیا مگر اس سے بہت سی کمپنیاں اُن کےخلاف ہو گئی ہیں۔ انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ فیس بک کا ایک پروجیکٹ ہے جس کا مقصد دنیا کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ پہنچانا ہے۔ ان علاقوں میں بھارت کے علاقے بھی شامل ہیں۔ فیس بک پہلے ہی کئی افریقی ممالک میں یہ سہولت فراہم کرنا شروع کرچکا ہے جبکہ بھارت میں یہ سروس حال ہی میں شروع کی گئی ہے۔ انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ کا اجراء پہلی بار ملک زمبیا میں جولائی 2014ء میں کیا گیا تھا۔ جس کے بعد یہ سروس تنزانیا، کینیا، کولمبیا، گھانا، فلپائن اور گوئٹے مالا میں بھی شروع کی جاچکی ہے۔ اگرچہ اپنے اجراء کے بعد سے ہی اس پروجیکٹ کے ناقدین اس پر تنقید کرتے آئے ہیں لیکن بھارت میں اس کی شدت زیادہ دیکھی گئی ہے۔ بھارتیوں کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت میں آن لائن مقابلے کی فضا متاثر ہو گی۔ انٹرنیٹ کی بہت سی بھارتی کمپنیوں نے فیس بک کے اس پراجیکٹ کی مخالفت کی ہے اور اس سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
فیس بک کے پروجیکٹ کے تحت صارفین بہت سی انٹرنیٹ سروسز کو بغیر کسی ڈیٹا چارجز کے اپنے موبائل فون پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس پریکٹس کو زیرو ریٹنگ بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے بھارت کے لاکھوں صارفین فیس بک کے مخالف ہوئے، جس کے بعد بھارتی کمپنیوں نے بھی انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ صارفین کا کہنا ہے کہ فیس بک کا یہ پروجیکٹ نیٹ نیوٹریلیٹی (net neutrality) کے اصولوں کے منافی ہے۔ نیٹ نیوٹریلٹی کا اصول ہے کہ انٹرنیٹ کے ہر صارف کو برابر سمجھا جائے اور انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی صارفین پرتھوپے۔ انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ میں سروس پروائیڈر صارف کو چند مخصوص ویب سائٹس تک محدود رکھتا ہے جس سے غیر جانبدار انٹرنیٹ کی نفی ہوتی ہے۔ اس منصوبے پر ایک بڑا اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ کا مقصد صرف فیس بک کو بڑھاوا دینا ہے نہ انٹرنیٹ کو فروغ دینا۔
این ڈی ٹی وی نے بھی انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ سے علیحدگی اختیار کر لی جبکہ ٹائمز آف انڈیا گروپ ، جو بھارت کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی ہے، نے بھی اپنی بہت سی ویب سائٹس کو اس پروگرام سے الگ کر لیا۔ ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ اگر دوسری کمپنیوں نے ساتھ دیا تو مزید ویب سائٹس بھی الگ کر لی جائیں گی۔سفری ویب سائٹ کلین ٹرپ، خبروں کی ویب سائٹ نیوز ہنٹ اور بھارت کا سب سے بڑا شاپنگ پورٹل فلپ کارٹ بھی انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ کا ساتھ چھوڑ گئے۔بھارت کی موبائل کمپنی ائیرٹیل نے بھی اس پروگرام میں شمولیت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب تک بھارت میں 38 میں سے 6 ویب سائٹس انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ سے الگ ہو چکی ہیں۔ فیس بک کی ترجمان نے اس صورتحال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ نے انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک کالم لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ نیٹ نیوٹریلیٹی کے اصولوں کے منافی نہیں۔
انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ پر بھارت میں کی جانے والی تنقید اور مخالفت اس منصوبے کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ بھارت ایک ارب چھبیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ملک ہے جہاں کی صرف 19فی صد آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں چین جس کی آبادی ایک ارب انتالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے، میں 46 فی صد آبادی کو انٹرنیٹ دستیاب ہے۔