اخبارات اور جرائد کو کاغذ کے بجائے کمپیوٹر ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز پر منتقل کرنے کی خواہش ایک دہائی سے بھی پرانی ہے۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل میں ایک اہم رکاوٹ ٹیبلٹس ہوں یا اسمارٹ فونز، ان کی اسکرینز دھوپ یا تیز روشنی میں نہ پڑھ پانا ہے ۔ اب وہ اخبار ہی کیا جسے کوئی صبح صبح اپنے باغیچے میں دھوپ سینکتے نہ پڑھ سکے۔ اسکرینز کے ساتھ یہ مسئلہ صرف ٹیبلٹس یا اسمارٹ فونز تک محدود نہیں بلکہ جدید ترین لیپ ٹاپس اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کی ڈسپلے بھی تیز روشنی میں نا قابل مطالعہ ہوجاتی ہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے 1997ء میں ای انک کارپوریشن کی جانب سے ای انک (الیکٹرانک انک) متعارف کروائی گئی۔ اس کمپنی کی بنیاد میسا چوسٹس انسٹی آف ٹیکنالوجی میڈیا لیب کے
دو موجدین جوزف جیکوبسن اور بارٹ کامسکی نے رکھی اور یہی دو صاحبان ای انک کے موجد ہیں۔
ای انک ڈسپلے کو تیز روشنی اور دھوپ میں بہ آسانی پڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی الیکٹرو فوریٹک (electrophoretic) کہلاتی ہے ۔ ای انک کے متعارف ہوتے ہی امید بندھ گئی کہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ای انک میں لاتعداد خامیاں ہیں۔ اسے تجارتی پیمانے پر تیار کرنا آسان نہیں۔ فی الحال اس کا استعمال چند ٹیبلٹس ، ای ریڈرز، گھڑیوں اور موبائل فونز تک محدود ہے۔ اس میں رنگ بھی پھیکے اور ریفریش ریٹ نہ قابل برداشت حد تک سست ہے۔
اب ایک ایسی ڈسپلے کا تصور کریں جس کا ریفریش ریٹ اور رنگوں کا معیار تو ایل سی ڈی جیسا ہو لیکن توانائی خرچ کرنے کے معاملے میں وہ انتہائی کفایت شعار اور اسے تیز روشنی میں بھی بہ آسانی پڑھا جاسکے۔ یہ شاندار ٹیکنالوجی ہماری دسترس سے اب زیادہ دور نہیں۔ مستقبل قریب میں ایسے ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز عام ہوجائیں گے جنھیں تپتی دھوپ میں بیٹھ کر بھی بہ آسانی پڑھا سکے گا اور یہ سب کچھ ممکن ہوگا Electrowetting ڈسپلے کی بدولت۔
کہانی شروع ہوتی ہے سال 2006ء سے جب فلپس کمپنی نے ایک نئی کمپنی ’’لیکوا وستا‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس کمپنی کا مقصد ہی الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے کی تیاری تھا۔ ابھی یہ کمپنی تحقیق اور پروٹو ٹائپس کی تیاری میں مصروف تھی کہ دسمبر 2010ء میں اسے سام سنگ نے خرید لیا۔ سام سنگ کی آغوش میں آنے کے بعد کمپنی نے انتہائی اعلیٰ پروٹو ٹائپس ڈسپلے تیار کیںاور اب امید کی جارہی ہے کہ اسی سال یعنی 2013ء میں الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے فروخت کے لئے پیش کردی جائے گی۔
لیکن یہ الیکٹرو ویٹنگ ہوتی کیا ہے؟
مختلف ٹھوس اجسام کی مائع جذب کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً ایک لکڑی پر اگر پانی ڈالا جائے تو وہ بہت آہستہ آہستہ بھیگتی ہے جبکہ یہ پانی اگر کسی کپڑے پر ڈال دیا جائے تو وہ بہت تیزی سے بھیگ جائے گا۔ اسی طرح اگر پانی کا قطرہ دھات پر ڈالا جائے تو وہ جذب نہیں ہوتا بلکہ سطح پر ہی رہتا ہے اور اس کی شکل بیضوی ہوجاتی ہے۔ ٹھوس اجسام کی یہ خاصیت ’’Wetting Property‘‘ کہلاتی ہے اور اس کا انحصار ٹھوس اور مائع کے مالیکولز کے برتائو پر ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کے قریب لائے جاتے ہیں۔
جب کسی ٹھوس کی سطح باردار (charged) ہو تی ہے تو اس کا مائع کے ساتھ برتائو (Wetting Property) بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جب کسی ٹھوس سطح کو برقی رو سے جوڑا جاتا ہے تو اس کی ویٹنگ پراپرٹیز تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس پر موجود مائع کی شکل بھی تبدیل ہوجاتی ہے اور جیسے ہی برقی رو منقطع کی جاتی ہے، مائع واپس اپنی اصلی شکل میں آجاتا ہے۔ جب ٹھوس کی جذب کرنے کی خاصیت کم کی جاتی ہے تو وہ مائع کو اوپر دھکیل کر اس کے حجم اور اونچائی میں اضافہ کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ٹھوس کے گیلا ہونے کی خصوصیت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی سطح پر موجود مائع کی مقدار بھی کم ہوجائے گی اور وہ اونچائی بھی۔اسی مظہر کو الیکٹرو ویٹنگ کہا جاتا ہے۔
الیکٹرو ویٹنگ کی اسی خاصیت کو ڈسپلے بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خوردبینی سیل جنھیں ہم پکسلز کہہ سکتے ہیں، میں سیاہ مائع (تیل) بھر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان سیلز سے روشنی کا بہائو ممکن نہیں رہتا۔ اس حالت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پکسلز ’’آف‘‘ ہیں۔ جب کسی سیل میں برقی رو دوڑائی جاتی ہے تو مائع سکڑ جاتا ہے ۔ یوں اس پکسلزسے روشنی کا بہائو شروع ہوجاتا ہے اور وہ روشن ہوجاتا ہے۔
رنگین ڈسپلے بنانے کے لئے ہر پکسل تین مزید سیلز (لال، سبز اور نیلا ) پر مشتمل ہوتا ہے جن پر رنگین فلٹر لگا دیئے جاتے ہیں۔ جس سیل پر جتنی مقدار میں وولٹیج دیا جائے گا، اس کا مائع اسی حساب سے سکڑے گا۔ یوں یہ تینوں سیل مل کر لاکھوں دیگر رنگ بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں لاکھوں سیلز بنا کر ایک مکمل ڈسپلے تیار کی جاسکتی ہے جو لاجواب خوبیوں کی حامل ہوگی۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ الیکٹرو ویٹنگ آخر ایل سی ڈی سے بہتر کیوں ہے؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے میں چند ہی تہیں (Layers) ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایل سی ڈی میں درجنوں کے حساب سے تہیں ، فلمز، پولرائزر، فلٹرز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا الیکٹرو ویٹنگ زیادہ روشن و چمکدار ہوتی ہے نیز اسے روشن رکھنے کے لئے توانائی بھی کم خرچ ہوتی ہے۔
الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے ایل سی ڈی کی طرح backlitہو سکتی ہے لیکن اس کی انہیں ضرورت نہیں۔ ای انک کی طرح انہیں reflective روشنی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی یہی خوبی سب سے کمال کی ہے۔
چونکہ الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے کو کسی قسم کے پولرائزنگ فلٹر کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے انہیں دن کی روشنی میں بھی بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا ریفریش ریٹ بھی خاصا بہتر ہے۔ یہ کسی پکسل کو آن کا آف کرنے کے لئے تین ملی سیکنڈ کا وقت لیتے ہیں۔ یہ کوئی ویڈیو دیکھنے یا گیم کھیلنے کے لئے کافی ہے۔ اس کی یہ خوبی اسے ای انک سے ممتاز کرتی ہے۔
آخری لیکن سب سے اہم بات کہ الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے تیار کرنے کا عمل 90فی صد تک وہی ہے جو ایل سی ڈی تیار کرنے کا ہے۔ سام سنگ کی اس ٹیکنالوجی میں اس قدر دلچسپی کی بھی شاید یہی وجہ ہے کہ الیکٹرو ویٹنگ ڈسپلے نہ صرف بہت جلد تیار کرلی جائے گی بلکہ اسے تجارتی پیمانے پر تیار کرنا بھی آسان ہوگا اور وہ بھی پروڈکشن آلات میں بغیر کوئی بڑی تبدیلی کئے!
کار آمد اور دلچسپ معلومات ملیں۔ ہم تو آپ کے میگزین کے فین ہوگئے جناب۔