دبئی ایئرپورٹ پر چہرہ پہچاننے والی جدید ٹیکنالوجی کا منصوبہ

دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈّوں میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسافروں کی حفاظت اور ان کی آمدورفت کو آسان بنانے کے لیے انتظامیہ تیز تر اور بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اسی سمت میں ایک اہم قدم ‘ورچوئل ایکویئریئم’ کی صورت میں اٹھایا گیا ہے جس میں چہرے پہچاننے کی صلاحیت رکھنے والے درجنوں کیمرے نصب ہوں گے۔

یہ ورچوئل ایکویئریئم یعنی ‘مچھلی گھر’ سرنگ کی صورت میں ہوگا جس میں سے گزرنے والے مسافر کے چہرے اور آنکھ کی پتلی کو اسکین کیا جا سکے گا۔ اس میں 80 جدید کیمرے نصب ہوں گے جن سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا کہ خیر مقدمی پیغام کے ساتھ مسافر کو کلیئر قرار دیا جائے یا سکیورٹی کو ہوشیار کرنے کے لیے سرخ اشارہ دیا جائے۔

مچھلی گھر کا تصوّر اس لیے دیا گیا تاکہ مسافر اِدھر اُدھر دیکھے اور چہرے کی اسکیننگ کا معیار بہتر ہو سکے۔ حکام کے مطابق مچھلیاں دیکھنے کے لیے مسافر کی نظر سرنگ کے مختلف حصوں میں جا سکتی ہے، جہاں نصب کیمرے اس کے کیمرے کو اچھی طرح اسکین کر سکیں گے۔

یہ انوکھا منصوبہ الامارات ایئرلائنز کے اشتراک سے شروع کیا جا رہا ہے اور 2018ء میں دبئی ایئرپورٹ کے ٹرمینل 3 پر اس طرز کی پہلی سرنگ اپنا کام شروع کردے گی۔ پھر 2020ء تک دیگر ٹرمینلز پر بھی ایسی ہی سرنگیں نصب کی جائیں گی۔ تب تک دبئی کے مختلف ہوائی اڈوں پر آنے والے مسافروں کی تعداد 124 ملین پہنچ جائے گی۔

چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی مختلف ہوائی اڈوں پر سکیورٹی اور پروسیسنگ کے عمل کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ امریکا کی ڈیلٹا ایئرلائنز بیگ ڈراپ کے عمل کو تيز کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتی ہے جبکہ امریکا کے مختلف ہوائی اڈوں پر بایو میٹرک ایگزٹ کا نیا نظام بھی آ رہا ہے جو مسافروں کے چہرے اسکین کرے گا۔

بلاشبہ، اس ٹیکنالوجی کے فوائد اپنی جگہ لیکن اس کے پھیلاؤ سے پرائیویسی کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے فائدے زیادہ ہیں یا پرائیویسی کے مسائل؟

فیشل ریکگنیشن