روبوٹکس میں ہونے والی ترقی سے بہت سی ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ ربورٹس جہاں وزن اٹھانے کےمعاملے میں مزدوروں کی چھٹی کرنے والے ہیں وہیں جدید ترین خود کار ڈرئیورنگ کاروں سے ڈرائیوروں کی نوکری بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جاپان میں تو اب ہوٹلوں کے استقبالیہ کا کام بھی روبوٹس نے سنبھال لیا ہے۔ دوسری جانب اچھی خبر یہ بھی ہے کہ گوگل کی سیلف ڈرائیونگ کار کو باقاعدہ ڈرائیونگ لائسنس بھی دے دیا گیا ہے۔ یوں یہ دنیا کی پہلی گاڑی بن گئی ہے جو بغیر کسی ڈرائیور کے روڈوں پر رواں دواں ہوگی اور اس کے پاس اپنا ڈرائیونگ لائسنس بھی ہوگا۔ یہ سارے روبوٹس مخصوص پروگرامنگ کی وجہ سے بڑے بہترین انداز میں اپنا کام سنبھال رہے ہیں۔
ایک شعبہ ایسا تھا جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ اس پر شاید روبوٹس یا کمپیوٹر مشکل سے ہی قابض ہو سکیں گے۔ مگر وہاں بھی کمپیوٹر سافٹ وئیر نے اپنی جگہ بنا لی۔ کمپیوٹر کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ یہ تخلیق کاری کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے مرزا غالب یا میر تقی میر جیسی غزلیں لکھنے، یا شیکسپیئر جیسا ادب لکھنے کی توقع نہیں رکھی جاتی۔ مگر مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی زبردست تحقیق و ترقی نے کمپیوٹر کو سوچنے کے لئے دماغ بھی فراہم کردیا ہے۔ اب کمپیوٹر منجھے ہوئے شاعروں کی طرح شاعری بھی کرسکتے ہیں اور کسی حد تک ادب لکھنے میں بھی اپنی صلاحیت منوا سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک شعبہ صحافت کا بھی ہے جہاں مستقبل میں صحافیوں کو کمپیوٹر سافٹ ویئر کی صورت میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایسے الگورتھم بنا لیے گئے ہیں جو کھیلوں کی رپورٹس اورمعاشی خبریں خود کار طور پر مرتب کر رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ بھی کسی انسانی رپورٹر کی طرح غلطیاں کر رہے ہیں (البتہ یہ غلطیاں چاند نواب جیسی نہیں ہوتیں) تاہم وہ بھی انسانوں کی طرح اپنی غلطیوں سے مسلسل سیکھ رہے ہیں۔ لگتا ایسے ہی ہے جیسے یہ صحافت کے کچھ حصوں میں انسانوں کی جگہ لینے کے لئے مکمل تیار ہیں۔
مختلف بین الاقوامی خبروں کی ویب سائٹس نے ایسے سافٹ ویئر بوٹ یا پروگرام بنا لیے ہیں جو زلزلہ پیما مرکز کی ویب سائٹ یا سرور سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ زلزلہ پیما مرکز کا نظام خود کار ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے کام کرتا رہتا ہے۔ یہ بغیر کسی انسانی مداخلت کے زلزلے اور اس کے مرکز کے متعلق معلومات جمع کرتا ہے۔ جیسے ہی زلزلہ پیما کے سرور پر کسی نئے زلزلے کی معلومات آتی ہیں، نیوز ویب سائٹس کے سافٹ ویئر بوٹ فوراً ہی اس معلومات کو حاصل کرکے خود کار طریقے سے اہم خبر بنا کر ویب سائٹ پر شائع کردیتا ہے۔ اسی طرح کا ایک بوٹ امریکی جیالوجیکل سروے نے بھی بنایا ہوا ہے۔ جیالوجیکل سروے کا بوٹ ٹوئٹر اور دوسری سوشل میڈیا ویب سائٹس کے اشتراک سے بنایا گیا ہے۔ یہ بوٹ مستقل طور پر سوشل میڈیا ویب سائٹس کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ جیسےہی کوئی صارف زلزے کا لفظ لکھ کر ٹوئٹ کرتا ہے، امریکی جیالوجیکل سروے کو سیکنڈوں میں صارف کے ٹوئٹ کی خبر ہوجاتی ہے۔ پھر سافٹ وئیر ٹوئٹ یا پوسٹ کا تجزیہ کرکے مزید چند سکینڈوں میں صارف کے مقام کی مدد سے زلزلے کے مقام کا پتا چلا لیتا ہے۔ امریکی جیالوجیکل سروے کا بوٹ بعض حالات میں تو اپنے آلات سے پہلے ہی سوشل میڈیا سے زلزلے کا پتہ چلا کر اس کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر دے دیتا ہے۔ ویب سائٹ سے دوسری ویب سائٹس کے نیوز بوٹ خبر کو اٹھاتے ہیں اور اپنی نیوز ویب سائٹ پر بریکنگ نیوز لگا دیتے ہیں۔
اسی طرح نیوز ویب سائٹس کھیلوں کی ویب سائٹس کو مانیٹر کرتی رہتی ہے اور سافٹ ویئر بوٹس کی مدد سے ہی میچ کی لمحہ بہ لمحہ کاروائی اپنی ویب سائٹ پر خبر کی شکل میں شائع کرتی رہتی ہیں۔ اِدھر فٹ بال میچ میں گول ہوا اور اگلے ہی لمحے ویب سائٹ پر بریکنگ نیوز شائع ہوگئی کہ فلاں کھلاڑی نے گول کردیا ہے۔ چونکہ سافٹ ویئر بوٹ کے پاس ڈیٹا کی کوئی کمی نہیں ہوتی، اس لئے سافٹ ویئر بوٹ خبر کے ساتھ ہی اس کھلاڑی کا اگلا پچھلا سارا ریکارڈ بھی مختصراً رپورٹ میں ڈال سکتا ہے جس سے خبر اور دلچسپ و جاندار بن جاتی ہے۔
ڈیٹا جرنلزم میں ان بوٹس اور سافٹ وئیر کا بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈیٹا جرنلزم صحافت کا وہ شعبہ ہے جس میں اعداد و شمار کی روشنی میں خبریں بنائی جاتی ہیں اور کمپیوٹر اعداد و شمار کے معاملے میں انسانوں کو باآسانی مات دے دیتا ہے۔
آج کل یہ بوٹس اتنے قابل ہوچکے ہیں کہ باقاعدہ ناول یا کتابیں لکھ سکتےہیں۔ یعنی اب سائٹ وئیر مصنف کا عہدہ بھی پا چکےہیں۔ ابھی یہ بوٹس اتنے قابل تو نہیں ہوئے کہ پورا اخبار ہی خود سے بنا سکیں تاہم یہ بوٹس معاشی اور کھیلوں کی خبروں کو بڑی کامیابی سے رپورٹ کی صورت میں پیش کر رہےہیں۔
خبریں دینے والے بڑے ادارے جو خبر جاری کرنے کا عمل خود کار کرنے پر کام کررہے ہیں، ایسے سافٹ ویئر بوٹس کا استعمال کرتے ہیں جو سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ہر وقت نظریں ٹکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ بوٹس اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب کوئی اہم شخصیت سوشل میڈیا ویب سائٹ مثلاً ٹوئٹر یا فیس بک پر کوئی پوسٹ یا تصویر شائع کرتی ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ مارک زکربرگ نے فیس بک پر کوئی پوسٹ کی اور اگلے ہی چند منٹوں میں کسی بڑی نیوز ایجنسی نے مارک زکربرگ کی تحریر پر خبر شائع کردی۔
چونکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کروڑوں لوگ ہیں، اس لئے سوشل میڈیا کے ذریعے خبریں جمع کرنے کا کام بھی لیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر شخص کسی نیوز رپورٹر کی طرح کام کررہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر اپنی رائے سوشل میڈیا سائٹس پر دیتا ہے۔ یوں سوشل میڈیا خبروں کا ایک بڑا ماخذ بن گیا ہے اور اس سے کام کی خبریں نکالنے کا کام سافٹ ویئر بوٹس کررہے ہیں۔
اس وقت جس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ بوٹس کا استعمال ہو رہا ہے وہ وکی پیڈیا ہے۔ وکی پیڈیا پربوٹس کی مدد سےر وزانہ 10 ہزار مضامین بھی بنائے جاتے رہے ہیں۔ وکی پیڈیا پر بوٹس کی مدد سے ایسے مضامین بنائے جاتے ہیں، جن میں ڈیٹا کا استعمال زیادہ ہو۔ مثال کے اردو وکی پیڈیا کے بوٹس کو کسی بھی مقام کا نام اردو میں لکھ کر اسکے سامنے انگریزی وکی پیڈیا پر اس مقام کے مضمون کا نام لکھنے کی دیر ہوتی ہے۔ اردو وکی پیڈیا کا بوٹ فوراً ہی اردو وکی پیڈیا پر اس کا مضمون بنادیتا ہے۔ اردو مضمون کے لیے ڈیٹا انگریزی وکی پیڈیا کے مضمون سے لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے مقام اے بی سی کا مضمون بناتا ہے تو ہم نے بوٹ کو *اے بی سی@ abc لکھ کر دیں گے۔ بوٹ فورا ہی انگریزی وکی پیڈیا پر abc کے صفحے میں اس مقام کا محل وقوع، آبادی اور دوسرا ضروری ڈیٹا دیکھے گا اور اردو وکی پیڈیا کے اے بی سی کے مضمون میں وہ تمام معلومات فقرات کی صورت میں لکھ دے گا۔ جیسے اے بی سی پاکستان کا ایک شہر ہے۔یہ صوبہ سندھ میں واقع ہے۔ اس کی آبادی 100000 ہے۔ اردووکی پیڈیا کا بوٹ مضامین میں اے بی سی کا نام ہماری ہدایت کی وجہ سے لیتا ہے ، جبکہ پاکستان، سندھ اور 100000 کے اعداد سے انگریزی وکی پیڈیا کےمضمون سے ملتے ہیں، جنہیں یہ متعلقہ مقامات پر لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اردو وکی پیڈیا پر بعض ایسے بوٹس کام کرتےہیں، جو اردو مضامین کی انگریزی مضامین کےحساب سے درجہ بندی کرتے رہتےہیں۔یعنی اس وقت خود کار صحافت کا بہت سا کام دئیے گئےڈیٹا کو ٹیکسٹ کی صورت میں پیش کرنے پر ہو رہا ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤس اور اخباری ایجنسیاں اپنے کام میں ذہین الگورتھم کو استعمال کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر Weser Kurier اپنی کھیلوں کی خبروں کے لئے سافٹ وئیر کا استعمال کرتی ہے۔ امریکا میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے صحافت میں سافٹ وئیر استعمال کر کے نئے رحجانات کی بنیاد رکھی۔ دنیا کے امیر ترین افراد کا ریکارڈ رکھنے والا میگزین فوربز بھی لمبے عرصے سے ایسے الگورتھم استعمال کر رہا ہے۔ اب کچھ عرصے نے نیویارک ٹائمز نے بھی اس پر تجربات شروع کیے ہیں۔
حالیہ دنوں میں کچھ ایسے تجربات بھی کیے گئے ، جن میں قارئین کو کمپیوٹر کی بنائی گئی رپورٹ اور انسان کی بنائی رپورٹ پڑھنے کو دی گئی تو انہوں نے کمپیوٹر کی بنائی گئی رپورٹس کو زیادہ قابل بھروسہ قرار دیا، بعض دفعہ تو کمپیوٹر کی رپورٹ پر ”مشینی رپورٹ“ کے الفاظ بھی لکھے ہوتے مگر قارئین پھر بھی انہیں پسند کرتے۔ کمپیوٹر کی رپورٹس زیادہ تر چھوٹے چھوٹے جملوں اور نمبروں پر مشتمل ہوتی ہے، اس لیے قارئین انہیں زیادہ پسند کرتےہیں۔
ترجمے اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فرانس میں ہونے والے واقعات کی اہم خبریں وہاں کے مقامی اخبارات سے بہتر کوئی رپورٹ نہیں کرسکتا۔ لیکن فرانس میں فرانسیسی بولی اور لکھی جاتی ہے۔ اس لئے وہاں ہونے والے واقعات رپورٹ کرنے کے لئے بین الاقوامی اخبارات اور ٹی وی چینلز مترجم حضرات کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن مشینی ترجمے میں ہونے والی ترقی نے ان مترجم صحافیوں کی نوکری بھی خطرے میں ڈال دی ہے۔ اب فرانسیسی ہو یا جرمن، عربی ہو یا فارسی، کمپیوٹر خاصے سلیقے سے ان زبانوں کا ایک دوسرے میں ترجمہ کرسکتا ہے۔ اس لئے ایسی زبانیں جن کا ترجمہ سافٹ ویئر درستگی سے کرسکتا ہے، انہیں بین الاقوامی خبروں کا ترجمہ کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس سب ترقی کے باوجود سافٹ ویئر بوٹس فوراً ہی انسانی صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے والے نہیں۔ لیکن مستقبل میں کئی صحافیوں کو ان سے حقیقی خطرہ ضرور موجود ہے۔