گمراہ کرتے لنکس اور صحافت کا بدلتا چہرہ

فیس بک کی وجہ سے ویب سائٹ ملاحظہ کرنے کے رحجان میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ کسی ویب سائٹ کا ہوم پیج جو کبھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا، اب اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ اس کا ثبوت وہ لاکھوں ویب سائٹس ہیں جن کے ہوم پیج انتہائی سادہ ہوتے ہیں اور ان پر اب تازہ ترین مواد کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اب صارفین فیس بک پر شائع شدہ کسی پوسٹ کے ذریعے متعلقہ ویب پیج پر آتے ہیں، اسے پڑھتے ہیں، ویب پیج بند کرتے ہیں اور واپس فیس بک پر آجاتے ہیں۔ تکنیکی زبان میں کہیں تو فیس بک نے ویب سائٹس کے باؤنس ریٹ میں زبردست اضافہ کیا ہے۔

باؤنس ریٹ صارفین کی وہ تعداد کہلاتی ہے جو ویب سائٹ کے کسی مخصوص ویب پیج کو ملاحظہ کرنے کے بعد ویب سائٹ پر مزید کچھ اور دیکھے بغیر، اسے بند کردیتی ہے یا کسی دوسری ویب سائٹ کی جانب چلی جاتی ہے۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس کی ویب سائٹ کا باؤنس ریٹ پچاس فیصد ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ویب سائٹ پر آنے والے ہر سو صارفین میں سے پچاس صارفین لینڈنگ پیج (landing page) پر آنے کے بعد ویب سائٹ سے واپس چلے جاتے ہیں۔ کسی ویب سائٹ کا باؤنس ریٹ جتنا کم ہوگا، اتنا ہی بہتر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ صارفین صرف لینڈنگ پیج ہی نہیں ملاحظہ نہیں کررہے بلکہ ویب سائٹ کے دوسرے صفحات میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔

جن قارئین کے علم میں نہیں، انہیں بتاتے چلیں کہ جب آپ کسی دوسری ویب سائٹ مثلاً فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ پر موجود کسی ربط پر کلک کرنے سے جس ویب پیج پر پہنچتے ہیں، وہ لینڈنگ پیج کہلاتا ہے۔ فیس بک کی اس مقبولیت کی وجہ سے ویب سائٹ مالکان کے لئے کام مزید بڑھ گیا ہے۔ اوّل وہ اپنی ویب سائٹ پر مواد شائع کرتے ہیں اور اس کے بعد فیس بک کے لئے بھی اس کی پوسٹ انہیں بنانی پڑتی ہے تاکہ لوگ ان کی ویب سائٹ یا درست الفاظ میں ویب پیج ملاحظہ کرنے آئیں۔

اس طرز عمل نے ایک نئے غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام کو جنم دیا ہے۔ اسے کلک بیٹ (clickbait) کہتے ہیں۔ Bait کا مطلب ہوتا ہے ’’چارہ‘‘ یعنی کسی کو پھنسانے کے لیے چارے کا استعمال کرنا، جس طرح کسی پرندے کو پکڑنے کے لیے دانے ڈالے جاتے ہیں یا مچھلی کو پکڑنے کے لیے ڈوری کے آگے لگی نوکیلی سوئی میں مردہ کیڑا ڈالا جاتا ہے تاکہ شکار لالچ میں آئے اور خود ہی پھنس جائے۔

یہ آفر کہیں محدود مدت کے لیے تو نہیں؟ جاننے کے لیے ظاہر ہے آپ کو لنک پر کلک کرنا پڑے گا

اس میں خاص طور پر سوشل میڈیا پر خبر ، مضمون یا ویڈیو کا عنوان ایسا رکھا جاتا ہے جو پڑھنے والے میں زبردست تجسس پیدا کردیتا ہے اور وہ مجبوراً اس پر کلک کر کے تفصیل جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً آپ نے فیس بک پر خبروں کی ویب سائٹ کی ایک پوسٹ ملاحظہ کی جس کا عنوان تھا کہ ”وزیر اعظم انتقال کرگئے!“ ۔ یہ عنوان پڑھنے والے کے اندر ایسا تجسس پیدا کردے گا کہ وہ لامحالہ اس ربط پر کلک کرکے تفصیل جاننے پہنچ جائے گا۔ خبر کی تفصیل میں کسی ایسے ملک کے وزیر اعظم کے انتقال کی خبر ہوسکتی ہے جنہیں آپ شاید جانتے بھی نہ ہوں۔ لیکن جب تک آپ یہ جان پائیں گے، ویب سائٹ مالکان کا مقصد پورا ہوچکا ہوگا۔ یعنی آپ ویب سائٹ پر تشریف لاچکے ہوں گے اور چند اشتہارات بھی دیکھ چکے ہوں گے۔

اس تصویر سے آپ کیا سمجھیں گے؟ درحقیقت اس میں افغان سپریم کورٹ کی خبر ہے

مرزا غالب شاید اسی دن کے لئے ”ایڈوانس“ میں قصیدہِ ”صبح دم دروازۂ خاور کھلا“ میں فرما گئے تھے کہ :
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا

کوئی کلک کیے بغیر جان سکتا ہے کہ یہ کس کام کا ذکر ہو رہا ہے؟

یہ تکنیک غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہونے کے باوجود پاکستان سمیت دنیا بھر میں کامیابی سے آزمائی جارہی ہے۔ ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو یہاں کلک بیٹ عام ہے اور اس میں میڈیا انڈسٹری سے وابستہ تقریباً ہر ادارہ ملوث ہے۔ اربوں روپے کا کاروبار کرنے والے یہ ادارے پیسے کی لالچ میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ کچھ اور پیسے کمانے کے لئے کلک بیٹ جیسی قبیح حرکت پر اُتر آئے ہیں۔

چلیے بھئی دنگ رہنا ہے تو کلک تو کرنا پڑے گا

ویب سائٹ چاہے انگلش میں ہو یا اُردو میں، کلک بیٹ کو کمائی کا آسان طریقہ سمجھ کر آزمایا جاتا ہے۔ الیکسا کی ریٹنگ دیکھی جائے تو پاکستان میں ملاحظہ کی جانے والے پاکستانی ویب سائٹس میں ایک بڑی تعداد اُردو ویب سائٹس کی ہے۔ لیکن پاکستان میں اُردو ویب سائٹس کے لئے کمائی کے ذرائع محدود ہیں۔ اُردو ویب سائٹس عموماً فی سبیل اللہ ہی بنائی جاتی ہیں اور جلد ہی کمائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اُکتا کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ انٹرنیٹ پر کچھ ہی اردو ویب سائٹس ایسی ہیں جنہیں گوگل ایڈ سینس کی نعمت دستیاب ہے۔ کچھ لوگ کمائی کے لئے ایڈ سینس کے علاوہ دوسرے دستیاب آپشنز مثلاً affiliate مارکیٹنگ، pay-per-download وغیرہ کی جانب چلے جاتے ہیں ۔ جن ویب سائٹس کو ایڈ سینس کی سہولت میسر ہے ان میں بیشتر ویب سائٹس خبروں سے متعلق یا اخبارات / ٹی وی چینلوں کی ہیں۔ لوگ ان کی ویب سائٹس پر براہِ راست جانے کے بجائے ان کے فیس بک صفحات کو دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور وہاں شائع شدہ تصاویر اور عنوانات سے متاثر ہوکر ان پر کلک کرتے ہیں۔

دراصل ایئرپورٹ پر کھڑے کھڑے انتظامیہ کی گاڑی اپنے ہی جہاز سے ٹکرا گئی۔ اب دیکھیں اسے کس طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ کئی اداروں نے تو خبر دی کہ جہاز اور گاڑی کا حادثہ

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں تھری جی اور فور جی کی آمد کے بعد موبائل صارفین کی ایک کثیر تعداد جو انٹرنیٹ سے واقفیت نہیں رکھتی تھی، بھی سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر کھنچی چلی آئی ہے۔ یہ ایک بہت مثبت رجحان ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ لوگ صرف فیس بک تک محدود رہتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یوٹیوب پر آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں۔

اب بھلا کس کا بینک اکاؤنٹ نہیں؟

آپ میں سے کئی لوگوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ عوامی مقامات پر بیٹھے یہ لوگ فیس بک پر مصروف ہوتے ہیں ( اور ثواب سمجھ کر اندھا دھند پوسٹس، تصاویر، ویڈیوز اور صفحات لائک اور شیئر کررہے ہوتے ہیں)۔ ہم انہیں لائک مشین کہتے ہیں۔ ایسے معصوم لوگ ہی ویب سائٹ مالکان کے لئے آسان شکار بھی ثابت ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ کلک بیٹ کے متاثرین بھی یہی ہوتے ہیں۔

دنگ رہنا کس کو پسند نہیں؟

چونکہ اسمارٹ فون پر تاحال اشتہارات کی بندش کا کوئی عام اور بہترین طریقہ موجود نہیں اس لیے ان صارفین کو اشتہارات دِکھانا مزید آسان ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر صارفین زیادہ تر اب ’’ایڈ بلاکر‘‘ سے واقفیت رکھتے ہیں اور براؤزر میں اس کے ذریعے اشتہارات پر قابو پا لیتے ہیں لیکن اسمارٹ فون پر چونکہ یہ کام تھوڑا مشکل ہے اور زیادہ تر ہمارے ہاں صارفین اس چیز سے نابلد ہیں اس لیے ایسے لوگ میڈیا ہاؤسز کے لیے سونے کی کان بنے ہوئے ہیں۔

بلاعنوان

کلک بیٹ صرف فیس بک تک محدود نہیں، یوٹیوب سمیت دوسری سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی اس سے متاثر ہیں۔ یوٹیوب پر ویڈیو تھمب نیل (وہ تصویر جو ویڈیو چلانے سے پہلے نظر آرہی ہوتی ہے) اپ لوڈ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یعنی آپ چاہیں تو اپنی اپ لوڈ کی ہوئی ویڈیو میں سے کسی حصے کو بطور تھمب نیل (thumbnail) استعمال کرنے کے بجائے اپنی مرضی کی تصویر اپ لوڈ کرسکتے ہیں۔ اب لوگ اس سہولت کو کلک بیٹ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ویڈیو دراصل کچھ اور ہوتی ہے، لیکن اس پر تھمب نیل ایسا لگایا جاتا ہے جو سنسنی خیز ہو اور اسے دیکھتے ہوئے مکمل ویڈیو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوجائے۔ مکمل ویڈیو دیکھنے کے بعد آپ اپ لوڈ کرنے والے کو لاکھ کوستے رہیں کہ جو چیز دیکھنے کی خاطر آپ نے اس پر کلک کیا تھا وہ تو وڈیو میں نظر آئی ہی نہیں لیکن اس کا مقصد یعنی آپ کو ویڈیو دکھانا اور پیسے کمانا، پورا ہوچکا ہوتا ہے۔

اب حملہ چاہے مکھیوں کا ہو، حملہ تو حملہ ہوتا ہے

فیس بک کے لئے یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔ آخر صارفین ویب سائٹ مالکان کے بعد فیس بک کو ہی دوش دیتے ہیں کہ وہ جعلی عنوانات والی خبریں اور مضامین کی اجازت ہی کیوں دیتے ہیں؟ فیس بک اجازت دیتا ہے یا نہیں، اس کی پرواہ کون کرتا ہے جب پیسے کمانے کی دُھن دماغ پر سوار ہو؟

کس چیز کے لیے؟ یہ جاننے کے لیے تو ظاہر ہے لنک پر کلک کرنا ہو گا

جعلی عنوانات والی بے ضرر خبروں اور مضامین کو شاید نظر انداز کیا جاسکتا ہے، لیکن پروپیگنڈا کی نیت سے پھیلائی گئی خبروں کو کسی صورت بخشا نہیں جاسکتا۔ حال ہی میں امریکی انتخابات کے دوران فیس بک زبردست تنقید کی زد میں رہی کہ اس پر انتخابات کے حوالے سے پھیلائی گئی جعلی خبروں کی وجہ سے نتائج پر اثر پڑا۔

آخر کون ہے یہ لڑکی؟ چلیں لنک پر کلک کر کے جانتے ہیں

امریکہ کی 44 فیصد عوام خبروں کے لئے فیس بک پر انحصار کرتی ہے۔ یہ تنقید اس پیمانے پر ہوئی کہ مارک زکربرگ کو ایک وضاحتی بیان پر مبنی فیس بک پوسٹ شائع کرنی پڑی۔ اس پوسٹ میں مارک زکر برگ کا دعویٰ تھا کہ فیس بک پر موجود 99 فیصد مواد اصلی ہوتا ہے اور چند افواہوں سے امریکی انتخابات کے نتائج پر اثر نہیں پڑ سکتا۔

چلیے بھئی فارغ ہی بیٹھے ہیں تو کیوں نہ ہوش اُڑوا لیے جائیں

امریکی صدر اوباما بھی فیس بک کو جعلی خبروں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ اس سے پہلے معروف ویب سائٹ Gizmodo نے ایک خبر شائع کی تھی کہ فیس بک نے اس میکانزم کو ہٹا دیا ہے جو نیوز فیڈ میں سے افواہوں اور جعلی خبروں کو ہٹاتا تھا۔ فیس بک نے اس خبر کی تردید کی۔ لیکن گِزموڈو اپنی خبر پر قائم ہے۔ گِز موڈو کا دعویٰ ہے کہ فیس بک نے جعلی خبروں اور کلک بیٹ سے نمٹنے کے لئے دو طریقے اپنائے۔ پہلے طریقے میں فیس بک کے صارفین سے ان کی نیوز فیڈ میں نظر آنے والی کچھ خبروں یا اسٹوریز سے متعلق رائے لی گئی کہ آیا یہ سچ ہیں یا افواہ۔ جب کہ دوسرے طریقے میں مشین لرننگ تکنیک کے ذریعے افواہوں اور اسپیم مواد کی شناخت کی گئی۔ دوسرا طریقہ زیادہ کامیاب ثابت ہوا اور فیس بک نے اسے استعمال کرنا شروع کیا۔ دو بے نام ذرائع کے حوالے سے گِز موڈو نے دعویٰ کیا کہ فیس بک کے اعلیٰ افسران کو اس نئے ٹول کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی ۔ لیکن یہ تکنیک متوازن ہونے کے بجائےدائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ویب سائٹس کی خبروں کو نیوز فیڈ سے غائب کرنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ افسران نے اس تکنیک کو استعمال کرنے سے روک دیا۔

اب اس پوسٹ پر کلک کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟؟؟؟

فیس بک پر کلک بیٹ کوئی نئی بات تو نہیں۔ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ فیس بک اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کررہی۔ ماضی کی طرح اس بار پھر مارک زکر برگ نے فیس بک ہونے والی تنقید کے جواب میں لکھی پوسٹ میں یہ عزم کیا ہے کہ وہ کلک بیٹ سے نمٹنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لئے فیس بک صارفین سے ان کی نیوز فیڈ میں نظر آنے والی اسٹوریز سے متعلق پوچھے گا کہ آیا وہ جعلی ہیں یا اصلی ہیں۔ صارف کی رائے کی روشنی میں فیس بک فیصلہ کرے گی کہ اس اسٹوری کو مزید صارفین کو دِکھانا چاہئے یا نہیں۔

صحافت سے حکمت تک کا سفر

اچھی خبر یہ ہے کہ فیس بک نے اس سروے کا آغاز کردیا ہے۔ کئی صارفین نے ٹوئٹر پر ایسی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فیس بک کسی خبر یا مضمون سے متعلق ان کی رائے پوچھ رہی ہے۔ مشین لرننگ کی ترقی اپنی جگہ، لیکن خبروں کو پرکھنے کا جو ہنر انسانوں کے پاس ہے، وہ ابھی مشین لرننگ کے پیچیدہ الگورتھم کے بس کی بات نہیں۔

فیس بک کے اس نئے فیچر جو کہ ممکنہ طور پر جلد ہی تمام صارفین کے لئے دستیاب ہوگا، میں تمام قارئین کو بھرپور حصہ لینا چاہئے۔ کلک بیٹ کا مکمل خاتمہ فیس بک سے ممکن نہیں، لیکن اس میں کمی کے لئے فیس بک کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہئے اور اس میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہئے۔ لیکن جب تک یہ فیچر مکمل طور پر فعال نہیں ہوجاتا، کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے کلک بیٹ کی پہچان کی جاسکے؟

ثانیہ سے کم از کم یہ امید تو نہ تھی

جی ہاں، کلک بیٹ کی پہچان زیادہ مشکل نہیں۔ کلک بیٹ کی سب سے اہم نشانی اس کا انتہائی عجیب و غریب عنوان ہے۔ ایک ایسا عنوان جس کی آپ توقع نہیں کررہے ہوتے یا وہ غیر معمولی طور پر دلچسپ ہوتا ہے۔ مثلاً خبروں کی ویب سائٹس کے پیچھے بیٹھے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھارت کے خلاف اور بھارت میں پاکستان کے خلاف کوئی بھی خبر ”سپر ہٹ“ ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ معمولی سے معمولی خبر کو بھی ایسے پیش کیا جائے کہ آپ کلک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اسی لئے آپ کو ”فلاں ملک میں زبردست دھماکہ،پورا شہر لرز اُٹھا“ جیسے عنوانات دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ خبر کھولنے پر ٹائر پھٹنے یا گیس سلنڈر پھٹنے کی خبر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر لوگوں کے دماغ سے کھیلنے کے لیے اکثر ’’پڑوسی ملک‘‘ کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے کہ ’’پڑوسی ملک میں شدید طوفان‘‘ یا ’’پڑوسی ملک میں بم دھماکہ ‘‘ ۔ عام طور پر لوگ اسے بھارت سمجھتے ہیں لیکن یہ ذکر پاکستان کے کسی اور پڑوسی ملک کا ہوتا ہے۔ اگر آپ سوچنے کو بیٹھیں یا صرف ایک دن فیس بک کی نظر آنے والی تمام اس طرح کی پوسٹس کا جائزہ لیں تو بخوبی ان شاطروں کے طریقہ کار کو سمجھ سکتے ہیں۔

پتا کرنا چاہیے یہ کس ٹائپ کی ہیروئن کا ذکر ہے‘ نہیں؟

لہٰذا یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ غیر معمولی نوعیت کے عنوانات والی خبریں، مضامین اور اسٹوریز عموماً کلک بیٹ ہی ہوتی ہیں۔ کلک بیٹ کی دوسری نشانی ” آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے“، ” آپ کو یقین نہیں آئے گا “، ” اس سے دلچسپ چیز آپ نے نہیں دیکھی ہوگی “، ” اُف، بچے ہرگز نہ دیکھیں “، ” خواتین بالکل نہ دیکھیں “، ” کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟“، ”فلاں نے کہہ دیا کہ “ جیسے عنوانات والی پوسٹ اور ویڈیوز کے بارے میں خاصے وثوق سے کہا جاسکتا ہے وہ کلک بیٹ /اسپیم ہیں۔ ان پر کلک کرنے سے اجتناب کریں۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ اصل لگنے والی خبر کے لنک پر کلک کرنے سے جو خبر یا مضمون آپ کے سامنے آئے وہ بالکل بیکار ہو یا جھوٹ پر مبنی ہو۔ یعنی وہ بھی کلک بیٹ ہی ثابت ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو آئندہ اس پبلشر (یعنی جس نے کلک بیٹ پوسٹ شائع کی) کی کسی بھی خبر پر کلک نہیں کرنا چاہئے۔ ایسے پبلشرز سے نمٹنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہوسکتا۔

یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ نمبر 124 میں شائع ہوئی

آن لائن میڈیابلاگصحافتکلک بیٹمیڈیاویب سائٹس
تبصرے (12)
Add Comment
  • Shan Ali

    ایک ذبردست تحریر ہے مگر ذیادہ سے ذیادہ لوگوں تک پہنچانے کیلئے اس تحریر کا کلک بیٹ لنک بھی ہونا چاہیے۔

  • Hassan Latif

    Baja farmaya. Lekin na hi pakistani awam hate gi aur na hi paskistani publishers.

  • Asmat Ali

    اچھا یہ بتائیں کہ آپ کس طرح اپنے سائٹ سے کمائ کرتے ہیں۔۔۔ ٹریفک تو ماشاء اللہ کافی ہے، اس پوسٹ نے تو بالخصوص کافی دھوم مچائ ہوگی۔۔۔ 🙂

  • Raza Abid Abbasi

    Thanks for raising voice against this, it’s realy a great issue. you pointed out very good points. I just want to add one more thing is that these Titles are creating physiological disorders in public so must must be banned.

  • Muhammad Waris

    فیس بُک سے کسی کو اپنی سائٹ پر پوری خبر یا تحریر پڑھنے کے لیے لے آنا کوئی بُری بات نہیں ہے۔ لیکن اس کام کے لیے گھٹیا، فخش، غیر شائشتہ، سنسنی خیز، گمراہ کن عنوانات رکھنا ، جیسا کہ اس تحریر میں واضح کیا گیا ہے، نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ قابلِ نفرین ہے۔

  • Zohaib Jahan

    Dil ki bat keh di. Shiddat sy clickbait per muzamti article ki zarurat thi.

    I define clickbait as an Unethical, unprofessional and emotional way of getting website traffic by deceiving title.

  • عثمان احمد

    great efforts … literally 80% of pakistanis are ignorant and they are soft target of these webmasters … indeed our peoples are fool

  • عثمان احمد

    computing is indeed a famous website, if you want better earning from your site than try best SEO and useful contents … otherwise you will round in dark … SEO is the key of success and pagerank in alexa …

  • عثمان احمد

    instead to suggest clickbait … you can share it and then let other to read this … it can also works fine

  • Tasadduq Hussain

    Thank you so much for raising such a hot issue. These so-called journalists are already earning much and now they have made the social media a place of earning… Bullshit.. Soon all of us shall have to delete our fb account….

  • Muhammad Nawaz

    ہاتھ کنگن کو آر سی کیا. اسے کلک بیٹ کی کیا ضرورت ہے